ایران اور روس کے درمیان جامع تعاون کے معاہدے پر اس سال کے آخر تک دستخط ہوں گے: امیر عبداللہیان

تہران، ارنا – ایرانی وزیر خارجہ نے روس کے ساتھ تعاون کے جامع معاہدے تک پہنچنے کے مقصد کے ساتھ تہران اور ماسکو کے درمیان مشاورت کے جاری رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے پر دستخط اس سال کے آخر میں ہوں گے۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے منگل کے روز ایک ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے دستاویزی پروگرام میں "سفارت کا میدان" کے عنوان سے کہی۔
انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے میدان میں صدر رئیسی کی سربراہی میں ایرانی حکومت کی کامیابیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ ہم وزارت صحت کے تعاون سے، قلیل مدت میں انسداد ویکسین کی درآمد کے لیے 102 ارب ڈالر مختص کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ ملکی مفادات کے مطابق ہم کسی بھی ایسی صلاحیت کو نظر انداز نہیں کریں گے جو عوام کے مفادات کو فراہم کرے خواہ مغرب ہو یا مشرق۔
انہوں نے یوکرائنی جنگ پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایران دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے یوکرین جنگ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کے دوسرے مہینے میں یوکرائن نے ایران سے مطالبہ کیا کہ روس سے جنگ بندی کا مطالبہ کرے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے امن کو برقرار رکھنے کے لئے ایران کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک امن برقرار رکھنے اور فریقین کی مذاکرات کی میز پر واپسی کے لئے اپنی کوششوں کا جاری رکھے گا مگر مغرب جنگی ہتھیار بھیجنے کو جاری رکھتے ہیں۔
تہران میں منعقدہ ایران، روس اور ترکی کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس کے بارے میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس اجلاس کا انعقاد بے سود نہیں ہے بلکہ شام میں آستانہ کی شکل میں ہونے والے امن مذاکرات کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اس سے علاقائی پیغام بھی پہنچا ہے، وہ کامیابیاں جو اس نے عوام اور حکومت کے فائدے کے لیے حاصل کیں۔
امیرعبداللہیان نے پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ مذاکرات ميں ہمارا مقصد اچھے اور پائیدار معاہدہ تک پہنچنا ہے اور جب ہم جوہری معاہدے پر واپس آتے ہیں تو ہمارے پاس قابل احترام سطح کی ضمانتیں ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کی میز سے پیچھے نہیں ہٹے اور ہم کسی بھی ہرجانے کے معاہدے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ہم ایک ایسے معقول معاہدے کی تلاش میں ہیں جس سے ملک کے مفادات محفوظ ہوں، جوہری معاہدے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ وعدوں کی وضاحت واضح طور پر کی گئی ہے، لیکن پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے۔
انہوں نے ایران کے ساتھ پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے دوران مغربی مطالبات کے بارے میں غیر مذکور مسائل کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ جوہری معاہدے کے موقع پر، ہم نے ایک بلاجواز قدم میں شہید جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث 60 افراد کے نام ایرانی بلیک لسٹ سے نکالنے کے بارے میں امریکیوں کے مطالبات کا سامنا کیا، اور ہم نے انہیں واضح طور پر یقین دلایا۔ کہ یہ معاملہ ایک سرخ لکیر ہے۔
ایرانی وزير خارجہ نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازعہ پر زور دیا کہ ایران نے آرمینیا کے ساتھ مواصلاتی راستے بند کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ معاملہ خطے میں ہتھکنڈوں کی شکل اختیار کر گیا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات میں تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں امیر عبداللہیان نے کہا کہ سعودیوں نے حال ہی میں تہران کے ساتھ سیاسی ملاقات کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے، دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے پانچویں دور کے انعقاد کے لیے طریقہ کار کی رفتار کو تیز کرنے کے منتظر ہیں۔
انہوں نے متعدد اسلامی ممالک کی طرف سے ناجائز صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جلدی کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتباہات، زمینی محاذ آرائی اور خطے کے عوام کے ردعمل کے بعد، آج ہم صہیونیوں کے ساتھ کچھ ممالک کی طرف سے معمول پر لانے کی پیش رفت میں سست روی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .