ارنا رپورٹ کے مطابق، المانیٹر نے آج بروز بدھ کو ابھرتی ہوئی معیشتوں بشمول برازیل، بھارت، چین، جنوبی افریقہ اور روس کے اقتصادی گروپ میں ایران کی شمولیت کی درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر اس فورم میں 40 فیصد آبادی اور عالمی معیشت کا 26 فیصد حصہ شامل ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، چین اس گروہ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے جو برکس کی مجموعی قدر کے 70 فیصد (5۔27 ٹریلین ڈالر) کے حصے کی تشکیل دیتا ہے حالانکہ بھارتک ا حصہ بطور اس گروہ کی دوسری اقتصادی طاقت کے، 13 فیصد اور برازایل اور روس ایک دوسرے کے ساتھ باقی 7 فیصد کے حصے کی تشکیل دیتے ہیں۔
المانیٹر نے برکس میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی حالیہ ورچوئل تقریر اور ایران کیجانب سے برکس کو اپنے مقاصد تک پہنچنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو اس گروہ سے شیئر کرنے کی تیاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی برکس میں شمولیت سے اس گروہ کی قدر میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ایران کے پاس دنیا کے ایک چوتھائی کے آئل کے وسائل ہے اور وہ گیس کے بڑے وسائل سے بھر پور دنیا کا دوسرا ملک ہے۔
اس نیوز ایجنسی نےشنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی شمولیت کے بعد ایران کی برکس میں شمولیت کو مشرق پر مائل ہونے کا دوسرا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کے سیکرٹری جنرل نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ برکس میں ایران کی موجودگی کا مطلب؛ ذرائع اور منڈیوں کے درمیان زیادہ موثر اور قریبی چینل ہے جس سے تمام ممبران کو فائدہ ہوتا ہے۔
برلن میں جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے سلامتی اور بین الاقوامی امور کے رکن "حمید رضا عزیزی" نے المانیٹر کو کہا ہے کہ ایران کی پچھلی حکومت (سابق صدر حسن روحانی کی قیادت میں) متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کا عقیدہ تھا کہ مغرب سے معمول پر تعلقات مشرق سے تعلقات کے فروغ کا کلید ہے اور بالعکس۔ لیکن صدر رئیسی کے برسرکار آنے سے ایران کی خارجہ پالیسی آہستہ آہستہ مغرب کے مخالف بن گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم سے برکس میں غیر مغربی گروپوں میں شامل ہونے کے لیے ایران کے اقدامات اس ناگزیر راستے کو ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کو ایسی دنیا میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے جہاں مغرب سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی زوال کا شکار ہے تو اسی منظر سے اگر جوہری معاہدے کی بحالی ہوجائے وہ ایک حکمت عملی کا حل ہے، جب کہ مشرق کی طرف مائل ہونے کی پالیسی کو اسٹریٹجک پالیسی سمجھا جاتا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ