تہران مغرب کے ساتھ برابری پر مبنی تعاون کے حق میں، ایران کے سفیر/ پاکستان ایران پر عائد پابندیوں کا مخالف، مشاہد حسین

اسلام آباد/ ارنا- منگل کے روز اسلام آباد میں "عالمی نظام کے بارے میں ایران کا زاویہ نگاہ" عنوان کے تحت ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں آزاد ممالک کے خلاف بڑی طاقتوں کی سازشوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔

اس کانفرنس کے پینل میں پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم، سنیٹر مشاہد حسین سید، انسٹیٹیوٹ فار ریجنل اسٹڈیز کے سربراہ سلیم جوہر، آئی آر ایس میں ایران ڈیسک کے سربراہ فراز نقوی اور قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس موجود تھے۔

اس موقع پر رضا امیری مقدم نے ایران کے اسلامی انقلاب کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ، ایران کے انقلاب نے دنیا بھر کے ستم رسیدہ انسانوں کے سامنے ایک نیا راستہ کھول دیا جس پر دنیا کی جابر طاقتیں برہم ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب نے نہ مشرق نہ مغرب کی پالیسی اپنا کر، سرد جنگ کی رسہ کشی کو بھی رد کردیا، ویٹو پاور اور ہر طرح کے ناجائز قبضے کو بھی مسترد کرکے دنیا کے موجود طرز انتظام کو چیلنج کیا ہے جو آج بھی غزہ کی حمایت اور صیہونی حکومت کے مظالم کی مخالفت کی شکل میں جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران ایک جانب اس غیرمنصفانہ نظام پر تنقید کرتا ہے تو دوسری جانب ایک ذمہ دار کھلاڑی کی حیثیت سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارم پر متحرک رہتا ہے۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات کو بھی مستحکم اور سیاست، اقتصاد، سلامتی سمیت ہر شعبے میں ترقی کی جانب گامزن قرار دیا۔

اس موقع پر پاکستان کے سابق سفارتکار اور آئی آر ایس کے سربراہ سلیم جوہر نے بھی کہا کہ ایران ایک مستحکم ملک ہے جس کے عوام نے پابندیوں کے بحران کو بے اثر کرنے میں ایک مثال قائم کردی ہے۔

سنیٹر مشاہد حسین سید نے بھی ایران اور پاکستان کے تاریخی اور عوامی تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام نے ایران کو الگ تھلگ کرنے یا غیرمستحکم بنانے کی کسی بھی پالیسی کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ ایران نے ہمیشہ مشکل لمحات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران پر عائد پابندیوں کا مخالف ہے کیونکہ خود اسلام آباد کو واشنگٹن کے اس غیرتعمیری رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس کانفرنس کا اہتمام پاکستان کے انسٹیٹیوٹ فار ریجنل اسٹڈیز نے کیا تھا۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .