ارنا کے مطابق صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے نیویارک میں مقامی وقت کے مطابق بدھ کو سینیر امریکی دانشوروں سے خطاب کیا۔
صدرایران کے اس خطاب کے اہم ترین نکات مندرجہ ذیل ہیں:
اسلامی جمہوریہ ایران نے کشیدگی بڑھنے اور جںگ کی روک تھام کے لئے صبروتحمل سے کام لیا لیکن غاصب صیہونی حکومت نے اپنی درندگی اور جرائم کو اوج پر پہنچا دیا ہے۔
ہم جنگ اور لڑائی نہیں چاہتے لیکن جب ہرروز کسی نہ کسی شکل میں ہمارے خلاف دباؤ اور اقدامات میں شدت اور وسعت آرہی ہے تو شاید اس کا نتیجہ وہ ہو جو ہم نہيں چاہتے۔
ہم جامع ایٹمی معاہدے کے پابند تھے، لیکن امریکیوں اور یورپ والوں نے ایسے وقت میں جب جامع ایٹمی معاہدے پر عمل ہورہا تھا،ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کے ہمراہ جاسوس بھیجے تاکہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات ميں تخریبکاری بھی کریں اور ایران پرمعاہدے کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگائيں ۔
یہ امریکیوں کا طریقہ ہے کہ ہر سمجھوتے کے بعد ہر بہانے سے فریق مقابل کی ذمہ داریاں بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ پسپائی اختیار کرے اور کمزور ہوجائے۔
امریکی اور صیہونی ہر روز دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں اور داعش جیسے گروہ بناتے اور ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ داعش کو کس نے بنایا اور اس سے کس نے جنگ کی ؟
ہماری بنیادی پالیسی ایران کی تعمیر کے لئے پوری توانائیوں اور صلاحیتوں سے کام لینا ہے۔
پڑوسیوں اور دیگر ملکوں سے ہمارا کوئی مسئلہ نہيں ہے ۔
ہمارا فلسطینی عوام کا دفاع ، ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا اعتقادی دفاع ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی جنگ کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور بنیادی طور پر ہمارا یقین ہے کہ جںگ کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہے۔
ہم نے اپنے ملک کی ضرورت کے لئے ان ملکوں سے روابط بڑھائے ہیں جو باہمی مفادات اور احترام کی بنیاد پر ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
ہم بے اعتمادی دور کرنے کے لئے گفتگو کا استقبال کرتے ہیں لیکن زورزبردستی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
آپ کا تبصرہ