پاکستان کے وزیر اعظم سرکاری دورے پر چین روانہ

اسلام آباد (ارنا) پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف چین کے صدر اور وزیراعظم کی دعوت پر 5 روزہ سرکاری دورے پر بیجنگ کے لیے روانہ ہوگئے۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد شہباز شریف کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے پہلے سن 2022 انہوں نے اتحادی حکومت کے دور میں چین کا 2 روزہ سرکاری دورہ کیا تھا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے آج ایک بیان میں  کہا ہے کہ شہباز شریف، ایک اعلیٰ سیاسی اور اقتصادی وفد کے ہمراہ بیجنگ روانہ ہوگئے جہاں وہ چینی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ وہ بیجنگ کے علاوہ شیان اور سینزن شہر کا بھی دورہ کریں گے۔

اس بیان کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم کا دورہ چین دونوں ممالک کی آہنی دوستی کا مظہر ہے اور اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلوں اور بات چیت کا تسلسل اس کا بین ثبوت ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں آیا ہے کہ دونوں رہنما اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے تمام پہلووں پر بات چیت کریں گے۔

واضح رہے کہ چین پاکستان مشترکہ اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک کو آگے بڑھانا، تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کا فروغ، اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان سیکورٹی اور دفاع، توانائی کے شعبوں میں تعاون میں اضافہ، اسپیس سائنس اور ٹیکنالوجی، اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون کو تقویت دینا پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ بیجنگ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

تقریبا 80 کمپنیوں کے اعلی عہدیداروں پر مشتمل پاکستان کا  130 رکنی اقتصادی وفد بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ چین گیا ہے جو چین کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں اور سرمایہ کاری کے بارے میں بات چیت کرے گا۔ 

پاکستان کے وزیر اعظم آج چین کے اپنے سرکاری دورے کا آغاز کر رہے ہیں، جب ان کا ملک بیجنگ کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب بیجنگ اسلام آباد کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے فروغ اور سرمایہ کاری کے عوض پاکستان میں چینی مفادات اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا خواہاں ہے۔

اس کے علاوہ، افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے کشیدہ تعلقات اور اسلام آباد کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے، خاص طور پر افغانستان سے چینی شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات، شہباز شریف کے دورے پر بھاری وزن ڈال رہے ہیں۔ اسلام آباد کو امید ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات اور افغانستان میں چینی اثر و رسوخ  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے اور مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .