اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تہران ٹائمز کے ساتھ گفتگو میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بلاک کرنے میں میٹا کمپنی کے اقدام کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آزادی اظہار کے بارے میں مغربی بیانات بعض سیاسی رجحانات کو مسلط کرنے اور فروغ دینے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، اور اس کا مطلب کبھی بھی آزادی اظہار اور فکر کی آزادی نہیں ہے۔
انکا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے فلسطین کی حمایت کی اجازت دینے والے مختلف یونیورسٹیوں کے صدور کے ساتھ جسطرح کا برتائو کیا ان یونیورسٹی کے صدور پر میڈیا کا ہر قسم کا دباؤ یہاں تک ڈالا گیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کو استعفیٰ دینا پڑا۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ مغرب فکر اور اظہار کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے، جبکہ اب بھی ان مسائل کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہم میں سے جو لوگ مغربی یونیورسٹیوں اور مغربی معاشرے کا تجربہ رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب معاملات سنگین ہو جاتے ہیں اور حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ آزادی ان کے اہم مفادات کے خلاف ہے تو یہیں سے یہ حکومتیں نفاذ کی حد لگا دیتی ہیں۔
حال ہی میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر میں صدر بنا تو وہ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت بند کروا دونگا اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے کسی بھی غیر ملکی طالب علم کو امریکی یونیورسٹیوں سے نکال دوں گا۔ یہی طرز عمل ہم نے مغرب کے مختلف حکام میں دیکھا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس وقت بعض یورپی ممالک میں فلسطین کی حمایت کو غیر قانونی اور سزا سے مشروط سمجھا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر آزادی اظہار کی توہین اور خلاف ورزی ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو بھی اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
آپ کا تبصرہ