صیہونی حکام نے مختلف طریقوں سے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ غزہ کو خاک میں ملا دیں گے اور حماس کے پوری طرح سے خاتمے تک، اپنے حملے جاری رکھیں گے۔
نیتن یاہو نے بارہا کھل کر کہا تھا کہ " تمام یرغمالیوں " کی رہائي سے قبل کسی طرح کی " جنگ بندی " کا کوئي سوال ہی نہيں ۔ یہاں تک کہ اسرائيلی فوجی حکام نے واضح کیا تھا کہ عبوری جنگ بندی بھی حماس کی مدد ہے اور وہ اسے بھی قبول نہيں کریں گے۔
حماس کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز پر غور ہو رہا تھا وہ بھی 8 اکتوبر سے! بلکہ اس سے بھی زيادہ پر کشش تجاويز تھیں اور اسرائيل نے 45 دنوں کی جنگ کے بعد حماس کی ایک تجویز قبول کر لی ہے۔
اسرائيل پہلے دن سے ہی اشارتا یہ کہتا رہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق، ہار کی طرح ہے اور صیہونی حکام ہمیشہ " تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط آزادی" اور " تمام یرغمالیوں کی رہائي اور حماس کے خاتمے تک حملے جاری رکھنے " کی بات دوہراتے تھے۔
اب کیا ہوا ؟ اسرائيل، قیدیوں کو حملوں سے رہا نہيں کرا پایا بلکہ آخر میں قیدیوں کے تبادلے کی حماس کی تجویز کو قبول کرنے پر مجبور ہو گيا، وہ بھی کچھ یرغمالیوں کے بدلے۔
قیدیوں کے تبادلے کا طریق کار بھی قابل غور ہے۔ ہر اسرائيلی قیدی کے بدلے 3 فلسطینی قیدی آزاد ہوئے۔ اس کے علاوہ ایندھن اور ضروری اشیاء سے لدے ٹرک بھی غزہ میں داخل ہو گئے ۔
صیہونی حکام کا حد درجہ غم و غصہ، قیدیوں کے تبادلے کے طریق کار پر صیہونی سیاسی دھڑوں کی طرف سے سخت تنقید اور اسی طرح رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں، ان کے اہل خانہ اور فلسطینی قوم کی بے پناہ خوشیاں، سب کی سب اس بات کا ثبوت ہيں کہ صیہونی حکومت کو 45 دنوں کے اندر دوسری بڑی شکست کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔
قیدیوں کے تبادلے کی شکل میں ملنے والی شکست اور فلسطینیوں کی خوشیوں کی وجہ سے صیہونی حکام کا غصہ اس حد تک بڑھ گيا ہے کہ صیہونی حکومت کے داخلہ سیکوریٹی کے وزیر نے قیدیوں کی رہائي پر مقبوضہ بیت المقدس میں جشن اور خوشی منائے جانے کو " دہشت گردی " کی حمایت سے تعبیر کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ