مسلح فورسز کو استحکام کی کسی بھی حد پر مطمئن نہ ہونا، رکے بغیر لگاتار آگے بڑھنا ہوگا: ایرانی سپریم لیڈر

 تہران، ارنا – ایرانی سپریم لیڈر نے دشمنوں کے مقابلے کے لیے مسلح افواج کی تیاری اور ہوشیاری کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح فورسز استحکام کی کسی بھی حد پر مطمئن نہ ہوں اور رکے بغیر لگاتار آگے بڑھتی جائیں۔

 یہ بات آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اتوار کی دوپہر کو مسلح فورسز کے کچھ کمانڈروں اور سینیئر عہدیداروں سے ملاقات میں کہی۔

انہوں نے ان فورسز کو امیر المومنین علیہ السلام کے حوالے سے ملک و قوم کی مضبوط دیواریں قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عظیم پوزیشن، بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے اور بحمد اللہ مسلح فورسز اس پرافتخار پوزیشن کی قدر سمجھتے ہوئے، اپنی ذمہ داریوں پر عمل کر رہی ہیں۔

 انہوں نے مسلح فورسز میں لگاتار پیشرفت اور تحرک پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو استحکام کی کسی بھی حد پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ رکے بغیر لگاتار آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے قرآن مجید کی ایک آيت کے حوالے سے ہمیشہ تیار رہنے کو خداوند عالم کا حکم اور خدا و قوم کے دشمنوں کے خوف کا سبب بتایا اور کہا کہ خطرہ کبھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوتا اس لیے آپ سے جہاں تک ممکن ہو، مختلف طرح کی تیاریوں میں اضافہ کرتے رہیے۔

انہوں نے مسلح فورسز کی تیاری کو دشمنوں کے سامنے ڈیٹرینس بتایا اور کہا کہ واقعات کے پس پشت لوگوں کے مقابلے میں ہوشیاری بہت زیادہ ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کمزور اور کم طاقت والے افراد کی باتوں اور ممکنہ اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ذہنوں کو اس طرح کی باتوں اور اقدامات میں نہیں الجھانا چاہیے بلکہ سازش کے اصل عناصر اور پس پردہ کارفرما لوگوں کو دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں عالمی شر پسند فورسز کی جنگ بھڑکانے والی کارروائيوں کے بارے میں کہا کہ سامراج جہاں بھی اپنے مفادات دیکھتا ہے، وہاں خود پیچھے رہ کر جھڑپ اور ٹکراؤ شروع کرا دیتا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مسلح فورسز کے کمانڈروں اور سینیئر عہدیداروں کی جانب سے دشمن کے طویل المیعاد منصوبوں اور چالوں پر توجہ مرکوز رکھے جانے کو بہت اہم بتایا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ دشمن کے پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبوں پر نظر رکھنا اچھا اور ضروری ہے لیکن اس کے وسط مدتی اور طویل المیعاد پروگراموں پر بغور مسلسل نظر رکھی جانی چاہیے۔

انہوں نے ایران کے مشرق اور مغرب میں امریکا کی جانب سے تقریبا دو عشرے قبل شروع کی گئي دو جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکا کے کچھ مفادات تھے لیکن اس کا اصلی اور آخری ٹارگٹ ایران تھا مگر اسلامی انقلاب کے انتہائي مضبوط ڈھانچے کی وجہ سے، امریکا کو اس معاملے میں اور اپنے اصلی ہدف میں ہزیمت اٹھانی پڑی۔

انہوں نے اس حقیقت کے حوالے سے کہا کہ دشمن کو اس کے تمام بظاہر مضبوط حساب کتاب اور فوجی طاقت کے باوجود شکست دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے صیہونی حکومت کی موجودہ پوزیشن کو اس طرح کی شکست کی ایک اور مثال بتایا اور کہا کہ گزشتہ سال کے ماہ رمضان میں صیہونی حکومت کے فلسطین مخالف حملوں پر کوئي خاص عالمی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا لیکن اس سال اس کے جرائم پر امریکا اور برطانیہ تک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی طرف سے غافل نہ ہونے کو اس کے قابل شکست ہونے کے یقین کی طرح ہی اہم بتایا اور کہا کہ کسی بھی مرحلے میں دشمنوں کے حیلوں اور چالوں کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلح فورسز کے فکری مراکز اور عناصر کو، مستقل بنیادوں پر اور جدت عمل کے ساتھ مضبوط، عاقلانہ اور راستہ کھولنے والی اسٹریٹیجیز اور پالیسیاں بنانے کی دعوت دی۔

اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے، مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل باقری نے مختلف میدانوں میں مسلح فورسز کے پروگراموں اور اقدامات کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

https://twitter.com/IRNA_Urdu

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .