شیراز کے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں ایرنی وزارت انٹیلیجنس کا دوسرا بیان

تہران، ارنا - 31 اکتوبر کو حضرت احمد بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار پر دہشت گردی کےواقعے کے متعدد کارندوں اور ملوث عناصر کی گرفتاری کےحوالے سے جاری کردہ بیان کے اعلان کے بعد اب حاصل شدہ معلومات کا ایک اور حصہ شائع کیا جاتا ہے۔

31 اکتوبر کو حضرت احمد بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار پر دہشت گردی کےواقعے کے متعدد کارندوں اور ملوث عناصر کی گرفتاری کےحوالے سے جاری کردہ بیان کے اعلان کے بعد اب حاصل شدہ معلومات کا ایک اور حصہ شائع کیا جاتا ہے۔

 آپریشن کا وہ سلسلہ جو امام زمانہ کے گمنام سپاہیوں نے 26 اکتوبر کو دہشت گردی کے حملے کے فوراً بعد آغاز کیا تھا، دن رات بغیر کسی وقفے کے جاری ہے اور یہ کارروائیاں انٹیلی جنس، کاؤنٹر انٹیلی جنس، سیکورٹی اور تکنیکی پہلوؤں میں جاری ہیں اور یہ آپریشن اس وزارت کی سب سے پیچیدہ اور وسیع انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

اب تک ہونے والی تحقیقات اور آپریشنز اس دہشت گردانہ حملے میں معاونت کرنے والے تمام عوامل کی نشاندہی اور گرفتاری کا باعث بنی ہیں۔ اسی طرح کی کارروائیوں کے لیے ملک میں داخل ہونے والے متعدد دیگر ایجنٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس طرح  ہم نے اب تک 26 تکفیری دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔

گرفتار ہونے والوں تمام افراد، ایرانی غیر ایرانی ہیں اور جمہوریہ آذربائیجان، تاجکستان اور افغانستان سے متعلق ہیں۔

ملک کے اندر کارروائیوں کی ہدایت اور رابطہ کاری کا بنیادی عنصر جمہوریہ آذربائیجان کا شہری ہے جس نے باکو کے حیدر علییف بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کی اور امام خمینی ہوائی اڈے کی فضائی سرحد سے ملک میں داخل ہوا تھا۔

 اس شخص نے تہران پہنچنے کے بعد جمہوریہ آذربائیجان میں رابطہ کار کو اپنی موجودگی کا اعلان کیا۔ اس نے فوری طور پر افغانستان میں داعش کے حکام کے ذریعے داعش کے غیر ملکی شہریوں کے نیٹ ورک سے رابطہ کیا اور تہران میں اپنی موجودگی کی اطلاع دی۔

شیراز کے دہشتگردانہ واقعے کا معاون عنصر ایک افغان شخص جس کا نام " محمد رامز رشیدی " ہے جس کا عرفی نام "ابو بصیر" ہے اور حرم مقدس میں گولی چلانے والے کا نام "سبحان کُمرونی " اور اس کا عرفی نام "ابو عایشہ" تھا۔

مذکورہ دہشت گردوں کو فارس، تہران، البرز، کرمان، قم اور رضوی خراسان میں گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کچھ کو مشرقی سرحدوں میں ملک سے فرار ہوتے وقت گرفتار بھی کیا گیا۔

مذکورہ دہشت گردوں میں سے کچھ زاہدان سمیت دیگر شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے ضروری انتظامات کی تیاری کر رہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں حضرت احمد بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار کے شہداء کا بے گناہ اور ناحق خون ، تکفیری مجرموں کے  دیگر عزائم اور کئی دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کے روکنے کا باعث بن گیا۔

شاہ چراغ مزار کے سانحہ میں ملوث آخری تکفیری دہشت گرد کی شناخت اور سزا کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .