بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے بینکنگ معاملات میں قومی کرنسی کا استعمال

تہران۔ ارنا- ایران کی تجارتی ترقیاتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ بحیرہ کیسپین کے اکنامک فورم میں اٹھائے گئے مسائل میں سے ایک قومی کرنسیوں اور سوئیفٹ، ڈالر اور یورو سے آزاد بینکنگ میکنزم کا استعمال ہے۔

 ارنا رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ بڑی افسوس کی بات ہے کہان میں سے کچھ شعبوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی یا معاہدوں کو التوا میں رکھا گیا۔ ان شعبوں میں سے ایک اور بہت سازگار موقع وسطی ایشیا، یوریشیا یا بحیرہ کیسپین سے متصل ممالک میں ایران کے شمالی ممالک کی صلاحیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان ممالک کو اکٹھا کریں تو درآمدی تجارت کا میدان ہمارے ملک کے سامنے 500 بلین ڈالر سے زیادہ ہو جائے گا، اس لیے ہمیں اس موقع کو اچھی طرح استعمال کرنا ہوگا اور ان کے لیے منطقی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

ایران کی تجارتی ترقیاتی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ ایک اہم بات، ان یونینوں اور علاقائی روابط میں ایران کی فعال موجودگی ہے جن میں سے یوریشیا میں فعال میوجودگی کی سنجیدگی سے پیروی کی جاتی ہے؛ 13ویں حکومت میں یوریشیا کے ساتھ آزاد تجارت کو اہم ترین مسائل میں شمار کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کہ گزشتہ ایک سال میں یوریشین علاقے میں ملاقاتوں، فالو اپ اور دوروں کی تعداد اس تعداد سے زیادہ ہے جو پچھلے 3 سالوں میں کی گئی تھی۔ اور اس سلسلے میں، ہمیں علاقائی آزاد تجارت کے حصول کے لیے میٹنگوں کے 9 سے زائد دور (5 ورچوئل راؤنڈ اور 4 ورچوئل راؤنڈ) شروع کرنے ہوں گے، جو یوریشیائی ممالک کے ساتھ پہلی علاقائی آزاد تجارت سمجھی جاتی ہے۔

ایران کی تجارتی ترقیاتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ بحیرہ کیسپین کے اکنامک فورم میں اٹھائے گئے مسائل میں سے ایک قومی کرنسیوں اور سوئیفٹ، ڈالر اور یورو سے آزاد بینکنگ میکنزم کا استعمال ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد بینکنگ چینلز یعنی ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ اکاؤنٹس بنانے کی صورت میں بہت سے فالو اپ کئے گئے اور روس جیسے ممالک کے ساتھ ان طریقوں کی بنیاد پر تعاون کے بارے میں بات چیت کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں نائب صدر، وزیر اقتصادیات اور وزارت خارجہ کے ساتھیوں نے بڑے اور اہم روسی اور علاقائی بینکوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں تاکہ یہ مسائل انتظامی مرحلے میں داخل ہوجائیں۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .