قائد اسلامی انقلاب کی 3 اکتوبر کو آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کے پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کی تفصیلات

تہران۔ ارنا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 3 اکتوبر 2022 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کے مشترکہ پاسنگ آؤٹ پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی کی اہمیت اور اس میں مسلح فورسز کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔

آپ نے ایک نوجوان لڑکی کی موت کے بعد ایران میں ہونے والے فسادات کے تمام اہم پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا۔ آپ نے امریکہ و اسرائیل کی سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے عدلیہ اور اداروں کو اہم ہدایات دیں۔ (1) رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

مجھے بڑی خوشی ہے اور میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ ایک لمبے وقفے کے بعد اس سال اس دن آپ عزیز جوانوں، فوجی کیڈٹس اور فوجی رینکنگ حاصل کرنے والے افسروں سے بالمشافہ ملاقات کی ایک بار پھر توفیق حاصل ہوئي۔ کئي ہزار جوانوں کا مسلح فورسز میں شامل ہونا ایک خوشخبری ہے، ایک نوید ہے، جو ہر سال دوہرائي جاتی ہے، چاہے وہ کیڈٹس ہوں جو فوجی کالجوں میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد فوجی افسر کا درجہ حاصل کر کے فورسز میں شامل ہو رہے ہیں اور کام میں مصروف ہو جائیں گے، چاہے وہ جوان ہوں جو فوجی کالج میں داخل ہو رہے ہیں اور کیڈٹ بن پر تعلیم شروع کرنا چاہتے ہیں، یہ سبھی کسی نے کسی طرح مسلح فورسز میں ایک نیا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ جوانوں کا یہ داخلہ اپنے اندر تعمیر نو اور استحکام کے پیغام لیے ہوئے ہے۔ جوان جہاں بھی جاتے ہیں، جس ادارے میں، جس تنظیم میں، در حقیقت وہ اپنے ساتھ اس مرکز کی تعمیر نو اور استحکام کا پیغام ساتھ لیے ہوتے ہیں۔ تمام میدانوں میں جوانوں کی موجودگي، امید افزا ہے، یعنی مختلف علمی و سائنسی، معاشی، سیاسی، تنظیمی، عسکری اور دیگر میدانوں میں جہاں بھی جوان پہنچتے ہیں، اپنے ساتھ امید، تعمیر نو اور نئی ایجادات کی خوش خبری لے کر آتے ہیں۔

اس وقت پروپیگنڈہ کرنے والا ایک گمراہ کن دھڑا موجود ہے جو اس کے بالکل برخلاف پروپیگنڈہ کرنا چاہتا ہے، پروپیگنڈہ کرنے والے اس دھڑے کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ ایرانی جوان اقدار سے دور ہو چکا ہے، مستقبل کی طرف سے مایوس ہے اور اس میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہے، پروپیگنڈہ کرنے والا یہ دھڑا ان باتوں کو پھیلانے کی پوری شدت سے کوشش کر رہا ہے، یہ حقیقت کے برخلاف ہے، ہمارے ملک میں پائی جانے والی حقیقت کے پوری طرح خلاف ہے۔ ہماری جوان نسل آج تک تمام میدانوں میں درخشاں کردار کی حامل رہی ہے، ان شاء اللہ آکے بھی ایسا ہی رہے گا۔ چاہے ملک کا دفاع ہو، چاہے سیکورٹی کا دفاع ہو، چاہے پورے خطے میں استقامتی محاذ کی مدد کا مسئلہ ہو، مقدس مقامات کے دفاع کا یہی عظیم اور مقدس مشن، چاہے سماجی خدمات ہوں، چاہے سائنسی پیشرفت ہو، آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاملے میں سائنسی پیشرفت، جوانوں کے کندھوں پر ہے، وہی ہیں جو اس راہ پر آگے بڑھنے والے ہیں، چاہے تمام مذہبی پروگرام ہوں، یہی اربعین مارچ، دسیوں لاکھ ایرانی جوان تھے جو گئے اور نجف اور کربلا کا راستہ پیدل طے کیا اور دسیوں لاکھ جوان جنھوں نے یہیں اپنے ملک میں، مختلف شہروں میں اربعین کے نام پر، اس منزل بشارت و معنویت سے پیچھے رہ جانے والوں کی حیثیت سے پیدل مارچ کیا، چاہے پیداوار اور ایجادات کا میدان ہو جس کی خبریں آپ ٹیلی ویژن پر دیکھتے رہتے ہیں کہ ہر دن ملک میں پیداوار کے کسی نہ کسی شعبے میں، ملک کی صنعت میں ہمارے نوجوان کوئی نئی کامیابی حاصل کر رہے ہیں، چاہے وبائي بیماری سے مقابلہ ہو، چاہے مومنانہ امداد کی تحریک ہو، چاہے ثقافتی جہاد ہو، چاہیے سیلاب اور زلزلے وغیرہ جیسی قدرتی آفات میں امداد کی ذمہ داری ہو، جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں گے، جوانوں کی بھرپور موجودگي نظر آئے گي۔ یہ جوان مایوس نہیں ہو سکتا، یہ جوان، اقدار سے دور نہیں ہو سکتا، یہ جوان، محاذ کے مرکز میں موجود اور نہ تھکنے والا ایک سپاہی ہے، ان تمام میدانوں میں انقلاب اور مومن جوان آگے آگے رہے ہیں، ہمارے جوان ایسے ہیں۔

تو اگر آپ کی موجودگي کو، جو امام حسن مجتبی کیڈٹ کالج میں اکٹھا ہوئے ہیں اور دوسرے کیڈٹ کالجز میں یہ باتیں سن رہے ہیں، ہم اس نظر سے دیکھیں تو مسلح فورسز میں آپ کی آمد اور آپ کی موجودگي، ایک سرمایہ ہے، آپ کی موجودگي ایک بڑی دولت ہے۔ البتہ سینیر فوجی اہلکاروں اور کمانڈروں کے تجربے کے ہمراہ۔

مسلح فورسز کو مضبوط بنانا، ملک کو مضبوط بنانا ہے۔ ملک کی تقویت میں مسلح فورسز ایک مضبوط ستون ہیں۔ البتہ ملک کی تقویت صرف مسلح فورسز تک محدود نہیں ہے، اور دوسرے مضبوط ستون بھی ہیں، سائنسی پیشرفت، ملک کی پیشرفت کا سبب ہے، عوام کا عمومی عقیدہ، دلوں میں ایمان کی مضبوط بنیادیں، قومی استحکام کا باعث ہیں، عوام سے نکلی ہوئي حکومت اور عوام کے سہارے بننے والی حکومت کسی بھی ملک کی سربلندی کا سبب ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں ہیں لیکن مسلح فورسز بھی، مسلح فورسز کی موجودگي بھی، فوجی طاقت بھی ملک کی بنیادوں کی تقویت کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ ملک کو خطروں اور دشمنیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، اس کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ البتہ یہ چیز تمام ملکوں کے لئے ہے، ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ تمام ملکوں کو ان وسیلوں کی ضرورت ہے لیکن ہمارے وطن عزیز جیسے ملک کے لیے، جسے امریکا وغیرہ جیسے منہ زور اور غنڈہ صفت دشمنوں کا سامنا ہے، اس چیز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لہذا دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔

میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے اور ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں، دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اس ذمہ داری کا کچھ حصہ مسلح فورسز کے باہر سے انجام پانا چاہیے اور کچھ حصہ مسلح فورسز کے اندر سے، میں مؤخر الذکر پر روشنی ڈالوں گا۔ مسلح فورسز کے ذمہ داروں کو نئے اور اپ ٹو ڈیٹ طریقے اختیار کر کے آرمڈ فورسز کو مزید مضبوط بنانا چاہیے جس کے لئے ایک کام تعلیم  اور ٹریننگ اور فوجی آلات کو اسمارٹ بنانا ہے۔ بحمد اللہ ہماری مسلح فورسز میں یہ کام شروع ہو چکا ہے لیکن کام کا میدان ابھی بہت کھلا ہوا ہے۔ آج فوجی ساز و سامان، ہتھیاروں یہاں تک کہ گولہ بارود سمیت مسلح فورسز کے تمام امور کو اسمارٹ بنانا اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ یا مسلح فورسز میں سائنسی و تحقیقاتی پیشرفت کا مسئلہ ہے، یہ مسلح فورسز کی تقویت ہے، یا ہائيبرڈ وار کے پیچیدہ کھیلوں کی ڈیزائننگ۔ آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا کی جنگیں، صرف ایک پہلو کی نہیں ہوتیں، ہارڈ وار، سافٹ وار، فکری جنگ، ثقافتی جنگ، مختلف ہتھیاروں سے جنگ اور  اسی طرح کی دوسری جنگيں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کسی قوم یا ملک پر حملے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وار گیم کو ان شاء اللہ ان تمام مراحل کو نئے طریقوں سے اور اپ ٹو ڈیٹ روشوں سے طے کرنا چاہئے۔

خیر تو مسلح فورسز کی اصلی ذمہ داری کیا ہے؟ قومی سلامتی کی حفاظت، یہ وہ چیز ہے جس پر آپ جوانوں کو، جنھوں نے تازہ تازہ اس راہ میں قدم رکھا ہے، فخر کرنا چاہیے، ناز کرنا چاہیے، سربلند ہونا چاہیے۔ مسلح فورسز کی ذمہ داری، ملک کی عمومی سلامتی کی حفاظت ہے۔ 'سیکورٹی یا سلامتی' کا مطلب کیا ہے؟ سیکورٹی، کسی بھی معاشرے کی زندگي کے تمام پہلوؤں کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ایک عمومی انفراسٹرکچر ہے، ذاتی مسائل سے لے کر، سماجی مسائل، اجتماعی مسائل اور خارجی مسائل تک، سیکورٹی، ان سب کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ذاتی زندگی میں، سیکورٹی کا مطلب یہ ہے کہ آپ رات کو اپنے گھر میں اطمینان سے سو سکیں، صبح کو پورے سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تشویش کے اپنے بچے کو اسکول بھیج سکیں، اپنے کام کی جگہ پر جا سکیں، بغیر کسی تشویش کے نماز جمعہ میں جا سکیں۔ دیکھیے، ان ملکوں پر نظر ڈالے جن میں یہ سکون اور خیال کی آسودگي نہیں ہے، ان میں سے کسی بھی مرحلے میں نہیں ہے، نہ رات کو اطمینان سے سو سکتے ہیں، نہ صبح کو کام پر جا سکتے ہیں، نہ آسودہ خاطر ہو کر اسپورٹس کے میچ دیکھنے جا سکتے ہیں، نہ نماز جمعہ جا سکتے ہیں، نہ سفر پر جا سکتے ہیں۔ یہ چیز چھوٹے ملکوں سے ہی مخصوص نہیں ہے، بڑے ملکوں میں، سب سے بڑھ کر امریکا میں، ریستوراں میں سیکورٹی نہیں ہے، یونیورسٹی میں سیکورٹی نہیں ہے، بچوں کے اسکول میں سیکورٹی نہیں ہے، دکان میں سیکورٹی نہیں ہے۔ ذاتی زندگی میں سیکورٹی کا مطلب یہ ہوتا ہے، یعنی آپ خود، آپ کے بچے اور آپ کے گھر کے افراد، سیکورٹی کے احساس کے ساتھ زندگي گزار سکیں، آپ کا کام، آپ کی نوکری، آپ کا سفر اور آپ کی تفریح، سیکورٹی کے ساتھ ہو۔

عمومی اور اجتماعی مسائل میں، یونیورسٹی یا دینی تعلیمی مرکز میں یا تحقیقی مرکز یا پھر انسٹی ٹیوٹ میں آپ بیٹھ کر غور کر سکیں، کام کر سکیں، تحقیق کر سکیں، مطالعہ کر سکیں، یہ سیکورٹی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو یہ پیشرفت حاصل نہیں ہو سکتی تھی، جہاں بھی ترقی و پیشرفت ہوئي ہے وہ سیکورٹی کے وجود کی برکت سے ہوئي ہے، سیکورٹی کے بغیر کام دشوار ہو جاتا ہے، سخت ہو جاتا ہے۔ معاشی سرمایہ کاری تک میں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک کی معاشی پیشرفت کے لیے سرمایہ کاری کریں تو یہ بغیر سیکورٹی کے ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر ٹرانزٹ ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر پیداوار نہیں ہو سکتی، سیکورٹی ان سبھی چیزوں کے لئے انفراسٹرکچر کا درجہ رکھتی ہے۔

مسلح فورسز، ملک اور سماج کے عام افراد کی اس دائمی اور ہمہ گير ضرورت کی تکمیل کرنے والی  ہیں، یہ کم فخر کی بات نہیں ہے۔ فوج ایک طرح سے، سپاہ (پاسداران) کسی دوسری طرح سے، پولیس فورس ایک اور طرح سے، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح سیکورٹی فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ جو کوئي پولیس تھانے پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی پر حملہ کرتا ہے، جو کوئي رضاکار فورس کے مرکز پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سلامتی پر حملہ کرتا ہے، وہ جو اپنے بیان میں، تقریر میں، گفتگو میں فوج یا سپاہ پر لعن طعن کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی کی توہین کرتا ہے۔ مسلح فورسز کو کمزور بنانا، ملک کی سلامتی کو کمزور بنانا ہے۔ پولیس کو کمزور بنانے کا مطلب ہے مجرموں کو مضبوط بنانا۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کے سامنے ڈٹ جائے، لوگوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائے، جو شخص پولیس پر حملہ کرتا ہے، اصل میں وہ لوگوں کو مجرموں کے مقابلے میں، غنڈوں اور اوباشوں کے مقابلے میں، چور کے مقابلے میں، منہ زور کے مقابلے میں نہتا کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ ہماری جو سیکورٹی ہے وہ پوری طرح سے ملک کے اندر سے پیدا ہونے والی ہے۔ بڑا فرق ہے کہ اس ملک اور اس قوم میں جو اپنے اندر سے، اپنی فورسز کے ذریعے، اپنی طاقت سے، اپنی سوچ سے اور اپنے نظریات سے اپنے لیے سیکورٹی پیدا کرے اور اس ملک اور قوم میں جسے باہر سے آ کر کوئي کہے کہ میں تمھارے لیے سیکورٹی فراہم کروں گا، تمھاری حفاظت کروں گا، اس شخص کی طرح جو اپنی دودھ دینے والی گائے کی حفاظت کرتا ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری سیکورٹی، ملک کے اندر سے حاصل ہونے والی سیکورٹی ہے۔ ہم اپنی سیکورٹی کے لیے کسی پر بھی منحصر نہیں ہیں۔ ہم نے خداداد طاقت، اللہ کے لطف و کرم، خداوند عالم کی توفیق، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حمایت، قوم کی پشت پناہی، مسلح فورسز کے ذمہ داروں کی استقامت سے یہ سیکورٹی پیدا کی ہے اور اس کی حفاظت کی ہے۔ جو، باہری فوج کے سہارے پر ہے اسے وہی غیر ملکی فوج سخت ایام میں اکیلا چھوڑ دے گي، وہ نہ تو اس کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔ خیر تو یہ کچھ جملے، مسلح فورسز کے مسائل کے بارے میں تھے، انھیں ذہن نشین رکھیے گا، فخر کیجیے، اسی کے نقش قدم پر چلیے، اپنے کام کو، خداوند عالم کی مرضی کے مطابق کیا جانے والا کام سمجھیے اور خدا کی خاطر اس کام کو انجام دیجیے۔

اب کچھ جملے حالیہ واقعات کے بارے میں۔ پہلی چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حالیہ کچھ دنوں کے واقعات میں سب سے زیادہ ظلم ملک کی پولیس فورس پر ہوا، رضاکار فورس پر ظلم ہوا، ایرانی قوم پر ظلم ہوا۔ ظلم کیا گيا۔ البتہ قوم اس واقعے میں بھی، پچھلے واقعات کی طرح مضبوطی سے سامنے آئي، پوری طرح مضبوط، ہمیشہ کی طرح، ماضی کی طرح۔ آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔ مستقبل میں بھی، جہاں بھی دشمن، خلل ڈالنا چاہیں گے تو جو سب سے زیادہ مضبوطی سے ڈھال بن کر سامنے آئے گا اور سب سے زیادہ موثر واقع ہوگا، وہ ایران کی بہادر اور مومن قوم ہے، وہ میدان میں آئے گي اور میدان میں آ گئي ہے۔ جی ہاں! ایرانی قوم مظلوم ہے لیکن مضبوط ہے، امیر المومنین کی طرح، مولائے متقیان کی طرح، اپنے آقا علی علیہ السلام کی طرح جو سب سے زیادہ طاقتور بھی تھے اور سب سے زیادہ مظلوم بھی تھے۔

یہ واقعہ جو رونما ہوا، اس میں ایک نوجوان لڑکی کی موت ہو گئي، ایک تلخ واقعہ تھا، ہمیں بھی دلی تکلیف ہوئي لیکن اس واقعے پر سامنے آنے والا ردعمل، کسی بھی تحقیق کے بغیر، کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ آ کر سڑکوں پر بدامنی پھیلا دیں، لوگوں کے لیے بدامنی پیدا کر دیں، سیکورٹی کو درہم برہم کر دیں، قرآن کو آگ لگا دیں، پردہ دار خاتون کے سر سے چادر چھین لیں، مسجد اور امام باڑے کو نذر آتش کر دیں، بینک میں آگ لگا دیں، لوگوں کی گاڑیوں کو جلا دیں۔ کسی واقعے پر جو افسوسناک بھی ہے، سامنے آنے والا رد عمل اس بات کا سبب نہیں بن جاتا کہ اس طرح کی حرکتیں کی جائيں، یہ کام نارمل نہیں تھے، فطری نہیں تھے، یہ بلوے، پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگر اس لڑکی کا قضیہ نہیں ہوتا تب بھی وہ لوگ کوئي نہ کوئي بہانہ پیدا کر لیتے تاکہ اس سال، مہر مہینے کے اوائل (ستمبر مہینے کے اواخر) میں اس دلیل کے تحت، جو میں عرض کروں گا، ملک میں بدامنی اور فسادات پھیلا سکیں۔ کن لوگوں نے یہ سازش تیار کی ہے؟ میں واضح الفاظ میں اور کھل کر کہتا ہوں کہ یہ دنگے اور بدامنی امریکا اور غاصب و جعلی صیہونی حکومت اور ان کے زرخرید پٹھوؤں کی سازش تھی، انھوں نے بیٹھ کر یہ سازش تیار کی ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والوں اور زرخریدوں اور غیر ممالک میں موجود کچھ غدار ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔

جیسے ہی ہم کہتے ہیں "فلاں واقعہ غیر ملکی دشمن کی کارستانی ہے۔" بعض لوگوں کو گویا اس "غیر ملکی دشمن" لفظ سے چڑ ہے، جیسے ہی ہم کہتے ہیں: "یہ غیر ملکیوں کا کام تھا، بیرونی دشمن کا کام تھا" یہ لوگ فورا امریکی حفیہ ایجنسی اور صیہونیوں کی ڈھال بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں! طرح طرح کے تجزیے، مغالطے میں ڈالنے والے طرح طرح کے بیان دینے لگتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ نہیں، اس معاملے میں غیر ملکی کردار، غیر ملکیوں کا ہاتھ نہیں تھا۔ دنیا میں بہت سے ہنگامے اور بلوے ہوتے ہیں اور یورپ میں، فرانس میں، ہر کچھ عرصے بعد پیرس کی سڑکوں پر بڑے ہنگامے ہوتے ہیں، میں پوچھتا ہوں کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی صدر اور امریکی ایوان نمائندگان نے بلوائیوں کی حمایت کی ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ پیغام دیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی سرمایہ داری اور امریکی حکومت سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور افسوس کہ سعودی حکومت سمیت خطے کی بعض حکومتوں جیسے ان کے پٹھو ان ملکوں میں ہنگامہ کرنے والوں کی حمایت کے لیے دوڑ پڑے ہوں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انھوں نے یہ اعلان کیا ہو کہ ہم فلاں ہارڈ ویئر یا انٹرنیٹ کا سافٹ ویئر دنگے پھیلانے والوں کو دیں گے تاکہ وہ آرام سے ایک دوسرے سے رابطہ اور اپنا کام کر سکیں؟! کیا ایسا دنیا کی کسی بھی جگہ پر اور کسی بھی ملک میں ہوا ہے؟ لیکن یہاں ہوا ہے، ایک بار نہیں، دو بار نہیں، بارہا، بار بار ہوا ہے۔ تو کس طرح آپ غیر ملکی ہاتھ نہیں دیکھ پا رہے ہیں؟ کس طرح کوئي ہوش و حواس والا انسان یہ نہ سمجھ پائے کہ ان واقعات کی پشت پر کچھ دوسرے ہاتھ ہیں، کچھ دوسری پالیسیاں کام کر رہی ہیں؟

البتہ وہ لوگ دروغگوئي کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک انسان دنیا سے چلا گيا لیکن وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انھیں کوئی دکھ نہیں ہے، بلکہ وہ خوش ہیں، مسرور ہیں، اس لیے کہ انھیں ہنگامہ آرائی کے لیے ایک بہانہ مل گيا ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ 

یہاں پر حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے سربراہوں نے افسوس کا اظہار کیا، لوگوں سے ہمدردی ظاہر کی، اس کے بعد کچھ خاص عناصر نے، جن کی طرف میں اشارہ کروں  گا، کچھ دوسرے لوگوں کو قتل کر دیا، بغیر کسی جرم کے۔ عدلیہ نے وعدہ کیا کہ وہ  معاملے کی تہہ تک جائے گی، تحقیق کا مطلب یہی تو ہے، یعنی وہ کام کو بیچ میں نہیں چھوڑیں گے، آخر تک جائيں گے تاکہ نتیجہ سامنے آ جائے، دیکھیں کہ کوئي قصوروار ہے یا نہیں ہے اور قصوروار کون ہے. آپ کس طرح ایک ادارے کے خلاف، ایک بڑے خدمت گزار ادارے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اس کی اہانت کرتے ہیں، اس بات کے امکانات کی وجہ سے کہ کسی ایک آدمی سے یا دو لوگوں سے کوئي غلطی ہو گئي ہوگي جبکہ وہ بھی یقینی نہیں ہے، اس کی تحقیق ابھی نہیں ہوئي ہے؟ اس بات کے پیچھے کوئي منطق نہیں ہے، کوئي ٹھوس وجہ نہیں ہے، اس کی، غیر ملکی جاسوسی کی تنظیموں اور خبیث و دشمن سیاستدانوں کی چال کے علاوہ اور کوئي وجہ نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ غیر ملکی حکومتوں کا محرک کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ان کا محرک یہ ہے کہ وہ محسوس کر رہی ہیں کہ ایران ہمہ گیر طاقت کے حصول کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور یہ انھیں برداشت نہیں ہے، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بحمد اللہ بعض پرانی گرہیں کھلتی جا رہی ہیں۔ البتہ ملک میں بہت سے مسائل ہیں، بعض مسائل کو تو برسوں گزر چکے ہیں لیکن ان مسائل کو برطرف کرنے کے لیے، ان گرہوں کو کھولنے کے لیے سنجیدگي سے کام ہو رہا ہے۔ وہ لوگ ملک میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو دیکھ رہے ہیں جن میں تیزی آ گئي ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ تمام میدانوں میں انسان تیزی سے آگے بڑھتے قدموں کا مشاہدہ کر سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، وہ لوگ بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بند پڑا کارخانہ چلنے لگا ہے، نالج بیسڈ کمپنیاں سرگرم ہو گئي ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ بعض میدانوں میں پیشرفتہ پیداوار روز بروز سامنے آنے لگي ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ایسے کام ہو رہے ہیں جو 'پابندیوں کے ہتھیار' کو – اس وقت دشمن کا واحد ہتھیار پابندیاں ہیں – ناکام بنا سکتے ہیں، وہ اس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے انھوں نے بیٹھ کر سازش تیار کی ہے، یونیورسٹی کے لیے سازش تیار کی ہے، سڑک کے لیے سازش تیار کی ہے، دشمن نے سازش تیار کی ہے کہ یونیورسٹی بند ہو جائے، جوان نسل (ہنگاموں میں) مصروف ہو جائے، ملک کے ذمہ داروں کے لیے نئے مسائل پیدا ہو جائيں، ملک کے شمال مغرب میں، ملک کے جنوب مشرق میں کچھ مسائل پیدا ہو جائيں، یہ سب بھٹکانے والی باتیں ہیں، یہ کام اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی اور اس کی پیشرفت کو روک سکیں۔ البتہ انھیں غلط فہمی ہے، وہ شمال مغرب میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں اور جنوب مشرق میں بھی غلط اندازے لگا رہے ہیں۔ میں بلوچ قوم کے درمیان رہ چکا ہوں، وہ لوگ دل کی گہرائي سے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے وفادار ہیں۔ کرد قوم، ایران کی پیشرفتہ ترین اقوام میں سے ایک ہے، اپنے ملک سے پیار کرنے والی، اپنے اسلام سے پیار کرنے والی اور اپنے اسلامی نظام سے پیار کرنے والی۔ دشمنوں کی سازش ناکام رہے گي، لیکن وہ اپنا کام کرتے رہیں گے، زہر گھولنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

یہ کام ہمارے دشمنوں کے باطن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ دشمن جو اپنے سفارتی بیانوں میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم اسلامی جمہوری نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہماری آپ سے کوئي دشمنی نہیں ہے اور ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں، اس کی اصلیت یہی ہے جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں، اس کے باطن میں سازش کی نیت ہے، اس کے باطن میں ہنگامے بھڑکانے اور دنگے کروانے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ملک کی سلامتی کو تباہ کرنے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ان لوگوں کو ورغلانا ہے جو ممکنہ طور پر معمولی سی بات پر ہیجان میں آ کر سڑکوں پر آ جائيں، اس کی اصلیت یہ ہے۔

وہ صرف اسلامی جمہوریہ کے مخالف نہیں ہیں، وہ سرے سے ایران کے مخالف ہیں۔ امریکا، مضبوط ایران کا مخالف ہے، خود مختار ایران کے خلاف ہے۔ ان کی ساری بحث اور ان کا سارا جھگڑا اسلامی جمہوریہ پر نہیں ہے، البتہ وہ اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ کے بغیر بھی وہ اس ایران کے مخالف ہیں جو مضبوط اور طاقتور  ہو، اس ایران کے مخالف ہیں، جو خود مختار ہو۔ وہ پہلوی دور کے ایران کو پسند کرتے ہیں: ایسی دودھ دینے والی گائے جو ان کے احکام کی تعمیل کرے اور ملک کا بادشاہ ہر فیصلے کے لیے انگریز سفیر یا امریکی سفیر کو بلانے اور اس سے احکامات لینے پر مجبور ہو! اس عار کو ایرانی قوم کس طرح برداشت کر سکتی ہے؟ وہ یہ چاہتے ہیں، وہ ایران کے مخالف ہیں۔

خیر تو ہم نے عرض کیا کہ منہ زور، یہ لوگ ہیں، بٹن ان کے ہاتھ میں ہے جو پس پردہ ہیں۔ بنابریں جھگڑا باحجاب اور بدحجاب پر نہیں ہے، جھگڑا ایک جوان لڑکی کی موت پر نہیں ہے، جھگڑا یہ ہے ہی نہیں۔ ایسی بہت سی خواتین، جن کا پردہ مکمل بھی نہیں ہے، اسلامی جمہوری نظام کی کٹّر حامی ہیں، آپ دیکھتے ہیں وہ مذہبی رسومات میں، انقلابی تقریبات میں، شرکت کرتی ہیں، بحث ان کی ہے ہی نہیں۔ بحث اسلامی ایران کی خودمختاری، استقامت، مضبوطی اور طاقت کی ہے، اصل بحث اس پر ہے۔

میں ایک دو نکات عرض کر کے اپنی بات ختم کروں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے سڑکوں پر ہنگامے اور تخریب کاری کی اور کر رہے ہیں، ان سب کو ایک ہی قطار میں نہیں رکھا جا سکتا، ان سب کا حکم یکساں نہیں ہے۔ ان میں بعض وہ بچے اور نوجوان ہیں جنھیں مثال کے طور پر کسی انٹرنیٹ پروگرام سے پیدا ہونے والا ہیجان سڑک پر لے آتا ہے، جوشیلے ہیں، جذباتی ہیں، جذبات میں آ کر سڑک پر آ جاتے ہیں۔ البتہ یہ سب کے سب، مجموعی طور پر بھی، ایرانی قوم اور ایران اسلامی کے مومن اور غیور جوانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں لیکن یہ اتنے سے لوگ بھی جو ہیں، ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جنھیں جوش اور ہیجان سڑکوں پر لے آتا ہے، ان کے مسئلے کو ایک وارننگ اور انتباہ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، یعنی انھیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسے نہیں ہیں، ان میں سے بعض اسلامی جمہوریہ سے چوٹ کھائے افراد کی باقیات ہیں: منافقین، علیحدگي پسند، منحوس پہلوی حکومت کے بچے کھچے عناصر اور نفرت انگیز اور دتکارے گئے ساواک (شاہ کی خفیہ تنظیم) کے ایجنٹوں کے رشتہ دار ہیں، وزارت انٹیلی جنس کے حالیہ بیان نے ان میں سے بعض باتوں کو بڑی حد تک واضح کر دیا ہے۔(2) البتہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ عدلیہ کو ان کی تخریبی کارروائيوں اور سڑکوں پر امن و امان کو نقصان پہچانے میں ان کے رول کی سطح کے مطابق ان کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کی سزا طے کرنی چاہیے۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ ہنگاموں کی ابتدا میں ہی بعض سرکردہ لوگوں نے، ہمدردی کے جذبے کے تحت - انھیں تکلیف ہوئي ہوگي - بغیر کسی تحقیق کے بیان دیا، بیان جاری کیا، بات کی، اظہار خیال کیا - البتہ بغیر تحقیق کیے ہوئے - ان میں سے بعض نے پولیس اور رضاکار فورس پر الزام لگایا، بعض نے پورے نظام کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا، ہر کسی نے الگ طریقے سے کچھ نہ کچھ کیا۔ خیر اس کا حساب الگ ہے لیکن جب انھوں نے یہ دیکھ لیا کہ معاملہ کیا ہے، جب یہ سمجھ گئے کہ دشمن کی سازش کے ساتھ ان کی باتوں کے نتیجے میں سڑک پر اور لوگوں کے راستے میں کیا ہو رہا ہے، تو انھیں اپنے اس کام کی تلافی کرنی چاہیے تھی، انھیں صحیح موقف اختیار کرنا ہوگا، انھیں کھل کر واضح الفاظ میں اعلان کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ اس کے خلاف ہیں، انھیں عوام کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ غیر ملکی دشمن کی سازش کے خلاف ہیں۔ معاملے کی حقیقت واضح ہو گئي ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں امریکا کے سیاسی عناصر ان معاملوں کو برلن کی دیوار سے تشبیہ دے رہے ہیں تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ مقصد کیا ہے؟ آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ معاملہ ایک نوجوان لڑکی کی موت پر افسوس کا نہیں ہے، یہ آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا، اگر نہیں سمجھے تو سمجھ جائيے اور اگر سمجھ گئے ہیں تو اپنے موقف کا اعلان کیجیے۔ یہ دوسرا نکتہ تھا۔

اسپورٹس اور آرٹس کے شعبے کے بعض لوگوں نے بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے، میری نظر میں اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اس سلسلے میں حساس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اسپورٹس کمیونٹی، ایک صحیح و سالم کمیونٹی ہے، ہمارے آرٹسٹوں کا معاشرہ بھی ایک صحیح و سالم معاشرہ ہے۔  اس اسپورٹس اور آرٹس کی کمیونٹی میں مومن، ملک سے پیار کرنے والے اور عزت دار لوگ کم نہیں ہیں، بہت ہیں۔ اگر دو چار لوگ کچھ کہہ دیتے ہیں تو ان کی بات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے بیان مجرمانہ فعل کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں تو یہ طے کرنا عدلیہ کے ذمے ہے، لیکن بادی النظر میں تو اس کی کوئي اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔ آرٹس اور اسپورٹس کی ہماری کمیونٹی، اس طرح کی باتوں اور دشمن کو خوش کرنے والے اس طرح کے رویوں سے آلودہ نہیں ہوگی۔

میری آخری بات، پولیس اور رضاکار فورس کے شہیدوں، مسلح فورسز کے شہیدوں، سیکورٹی کے دفاع کے شہیدوں، حالیہ شہیدوں اور راہ حق کے تمام شہیدوں پر بے شمار درود و سلام ہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں منعقد ہوا، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف بريگيڈیئر جنرل محمد باقری، ایرانی فوج کے کیڈٹ کالجوں کے کمانڈر سیکنڈ ایڈمرل آریا شفقت، امام حسین کیڈٹ کالج کے کمانڈر بریگيڈیئر نعمان غلامی اور امام حسن آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیئر پرویز آہی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) وزارت انٹیلی جنس کے بیان میں جو 30/9/2022 کو جاری ہوا، ملک کے بعض حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے ہنگاموں کی تفصیلات بیان کی گئي ہیں اور بتایا گيا ہے کہ ان ہنگاموں کے دوران منافقین (دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق) کے گروہ سے وابستہ 49 ایجنٹوں، کومولہ، ڈیموکریٹ، پاک اور پژاک جیسے گروہوں سے تعلق رکھنے والے 77 عناصر، تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے پانچ اراکین، بہائي فرقے کے پانچ افراد، منحوس پہلوی حکومت سے وابستہ اور سلطنتی نظام کے خواہاں 92 افراد، 9 غیر ملکیوں، غیر ملکی میڈیا سے وابستہ بعض افراد اور ہسٹری شیٹر 28 غنڈوں اور بدمعاشوں کو حراست میں لیا گيا ہے۔

**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .