اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے کی ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت

تہران، ارنا -  ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

یہ بات ناصر ابوشریف نے ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے صہیونی حکومت کے بارے میں فلسطینی قوم کے واضح موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رجیم کا بیج مغربیوں کی جانب سے مغرب کی لامحدود حمایت اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم سے بویا گیا ہے۔ اور اس حکومت کی بنیاد فلسطین میں انسانیت کے خلاف جرائم پر قائم کی گئی ہے۔

فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور صیہونی حکومت کے تعلقات کے پس منظر کے بارے میں کہا کہ ترکی 1948 سے اب تک کئی مراحل سے گزرا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک نے اعلان کیا کہ وہ صیہونی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور صیہونی حکومت کی حفاظتی پٹیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

ناصر ابوشریف نے ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے آغاز کے بعد مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ترکی کے بیانات اور موقف میں مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔ ہم نے ترکی کے عوام اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت اور صہیونی رجیم کے خلاف جنگ کیلیے کچھ اقدامات کو دیکھا مثال کے طور پر مرمرہ جہاز کا مسئلہ۔ لیکن ترکی کی حکومت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر میرے خیال میں اس حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی قابل قدر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینی عوام کی مکمل اور بھرپور حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو اس طرح کا بوجھ اٹھاتا ہے اور مسلمان کو پوری طرح فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی تعلقات کے مخالف ہیں اور ہمارے یقین ہے کہ یہ کام غلط ہے اور فلسطینی عوام کے لیے نقصان دہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔

ابوشریف نے کہا کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .