آئل پرائس میں شائع ہونے والے اپنے تجزیے میں صحافی سیمون واٹکنز نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دوسرا اہم دورہ تہران تھا، پیوٹن کے دورہ تہران سے عین قبل روس کی گیس پروم آئل کمپنی اور ایرانی نیشنل کے ساتھ 40 ڈالر مالیت کے توانائی کا معاہدہ ہوا، یہ معاہدہ ایران اور روس کے درمیان تعاون کا ایک اہم ستون ہے۔
امریکہ کی اہم اشاعت آئل پرائس میں شائع ہونے والے اس تجزیے میں کہا گیا کہ مغربی ممالک کو ایران کی نیشنل آئل کمپنی اور روس کی گیس پروم آئل کمپنی کے درمیان توانائی کے معاہدے پر تشویش ہے۔
واٹکنز کے تحریر کردہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان توانائی تعاون عالمی تیل کے بحران کا ایک اہم حل ہے۔
تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ معاہدے میں، گیس پروم کمپنی نے 10 ارب ڈالر مالیت کے شمالی پارس اور کیش گیس فیلڈز کی ترقی میں ایرانی نیشنل آئل کمپنی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ 15 ارب ڈالر کے جنوبی پارس گیس منصوبے کی حمایت کریں گے جو ایران اور قطر کے درمیان سمندری سرحد پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے کے تحت ایل این جی اور گیس پائپ لائن منصوبوں میں تعاون کا تصور کیا گیا ہے۔
تجزیے میں کہا گیا کہ روس یوکرین جنگ کے بعد خاص طور پر قدرتی گیس کی یورپ کی اہم ضرورت کے پیش نظر تہران اور ماسکو کے درمیان ہونے والے معاہدے کی پاسداری کی گئی۔
تجزیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایران کے پاس روس کے بعد گیس کے دوسرے بڑے ذخائر ہیں، یہ معاہدہ کریملن نے تیار کیا تھا۔ اس طرح ماسکو مستقبل میں ایرانی قدرتی گیس پر مزید کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس گیس کو جنوبی یورپ تک پہنچانا چاہتا ہے۔
اس معاہدے سے اس کا مقصد ایل این جی کے حوالے سے قطر پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ صورت حال مغربی ممالک کو پریشان کر رہی ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ