یہ بات محترمہ خاتون رفعت مسعود نے بدھ کے روز اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز میں منعقدہ ایک ویبنار میں "شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت ایک موقع کے طور پر" کے عنوان سے اپنی ایک تقریر سے کہی۔
انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ہمارے ملک کی رکنیت کو اسلامی جمہوریہ ایران کو الگ تھلگ کرنے کے منصوبے کے خلاف ایک فیصلہ کن ردعمل قرار دیا۔
رفعت مسعود نے کہا کہ شنگھائی تنظیم میں معاش اور معیشت کو بحال کرنا تہران کا بنیادی مقصد ہے اور وہ توقع کرتا ہے کہ دوسرے اراکین اس مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے میں اپنے کردار کو پورا کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اقتصادی منصوبے کے حصول کے لیے پرعزم ہے اور تجارتی اور اقتصادی تعاون کیلیے شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر اراکین کی جانب سے تعمیری تعاون کا خواہشمند ہے۔
سابق پاکستانی سفیر نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک اہم علاقائی ادارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ کوئی مغربی طاقت اس کا رکن نہیں ہے اور ان کے اراکین خود علاقائی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے افغانستان کو شنگھائی کے ممبران بالخصوص ایران اور پاکستان کے لیے ایک مشترکہ چیلنج قراردیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے ایک امتحان ہے کیونکہ اس ملک میں امن کا قیام اور اس کے دیرینہ تنازعات اور علاقائی امن اور اقتصادی خوشحالی کے درمیان براہ راست رابطہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان، افغانستان کے دو مشترکہ ہمسایوں کے طور پر اس ملک کی صورتحال سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور دوسری جانب شنگھائی کے رکن ممالک کے درمیان علاقائی رقابتیں اور دو طرفہ تعلقات اس تنظیم پر امریکہ کے براہ راست اثر و رسوخ کو بڑھا سکتے ہیں۔
رفعت مسعود نے کہا کہ مشترکہ اقتصادی اہداف کا حصول اور سلامتی کے مسائل پر قابو پانا شنگھائی ممبران کی اہم تشویش ہے اور وہ اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے، علاقائی سلامتی اور استحکام میں کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
https://twitter.com/IRNAURDU1
آپ کا تبصرہ