ان خیالات کا اظہار "حسین امیر عبدااللہیان" نے اپنے دورہ بیروت کے خاتمے پر ایک پریس کانفرنس کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور سعودی عرب، بعض معاملات پر متفق ہوگئے ہیں۔
انہوں نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرے کو علاقے کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے اسے تعمیری قرار دے دیا۔
امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور سعودی عرب دو بہت اہم ملک ہیں اورعلاقے کے استحکام میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریہ اسلامی ایران کا عقیدہ ہے کہ مذاکرات سے علاقے کے مستقبل کو روشن کیا جاسکتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بہت جلد خطے میں امن و سلامتی کے میدان میں ایران کے اقدامات کے نتائج دیکھیں گے۔
انہوں نے لبنانی حکام سے اپنی حالیہ ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مذاکرات کا ایک حصہ لبنان کے معاشی بحران سے متعلق تھا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران لبنان کیساتھ انفراسٹرکچر کے تمام شعبوں میں تعاون اور اس ملک کی خاص طور پر پر خوراک اور طبی سامان کی فراہمی کی حمایت پر تیار ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ خطے کے ممالک اور اقوام امریکہ کو معاشی جنگ اور لبنان کا محاصرہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امیر عبداللہیان کے مطابق مزاحمت، لبنان میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اور حزب اللہ لبنانی قوم کے محافظوں کا سب سے بڑا محافظ ہے۔
انہوں نے ایران سے لبنان میں ایندھن کی کھیپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے ایران سے پٹرولیم مصنوعات وصول کرنے کی تجویز دی اور نجی شعبے نے بھی اس منصوبے پر عمل کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر لبنانی حکومت ایران سے تیل کی مصنوعات مانگے تو تہران اسے فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔
امیر عبداللہیان نے جوہری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ہمارے لیے بنیادی معیار امریکہ کا رویہ اور جوہری معاہدے کی طرف واپسی میں اس کی سنجیدگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ جوہری معاہدے میں واپسی کیلئے سنجیدہ ہے تو ہم اس پر اعتماد کر سکتے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ایرانی قوم کے مفادات کے مطابق، ویانا جوہری مذاکرات میں واپس جائیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ حکومت کا بنیادی مقصد تمام شعبوں میں جامع معاشی ترقی ہے۔
امیر عبداللہیان نے ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے تعلقات میں حالیہ واقعات سے متعلق کہا کہ جمہوریہ آذربائیجان میں صہیونی ریاست انٹیلی جنس کی موجودگی اس ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور ہم صہیونی ریاست کو ہمارے پڑوس میں جاسوسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صہیونی ریاست، ایران کے لیے خطرہ بننے کے لیے بہت چھوٹی ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ