سویڈن کی "لوکل" ویب سائٹ نے لکھا: سویڈش میڈیا نے سن 2023 کے مظاہروں کے دوران قرآن کے نسخے جلانے والے عراقی کارکن مومیکا کے قتل کی تصدیق کی ہے۔
اسٹاک ہوم کی ایک عدالت نے مومیکا پر "سلوان نجم" کے ساتھ نفرت انگیز جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے۔
استغاثہ کے مطابق، قرآن کو جلانے کے علاوہ، دونوں نے ایسے بیانات دیے جنہیں "لوگوں کو ایک خاص گروہ کے خلاف اشتعال انگیزی سمجھا جا سکتا ہے۔
سویڈش اخبار ایکسپریسن کے مطابق پولیس نے جمعرات کی صبح نجم سے رابطہ کیا اور اس نے کہا کہ اسے اطلاع ملی ہے کہ مومیکا کو قتل کر دیا گیا ہے۔
سویڈش اخبار داگنز نی ہتر نے بھی لکھا:مومیکا کو سوشل میڈیا پر لائیو پرفارم کرتے ہوئے گولی مار دی گئی۔
سویڈش پولیس نے کہا کہ وہ ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کر سکتی اور تحقیقات ہو رہی ہیں۔
پولیس نے متاثرہ شخص کی شناخت یا اس کے زخموں کی صورت حال جاننے کے لیے سویڈن کے اخبار دگنس نیہیر کی درخواست کا بھی جواب نہیں دیا تاہم، اسٹاک ہوم ڈسٹرکٹ کورٹ نے اس مقدمے کے فیصلے کو 3 فروری تک موخر کر دیا ہے کیونکہ، عدالت کے مطابق، "مدعا علیہان میں سے ایک کی موت ہو گئی ہے۔"
سویڈش میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے سلسلے میں پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مومیکا اور نجم کی طرف سے قرآن کی بے حرمتی نے مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کیا گيا تھا اور عراق میں جولائی سن 2023 میں بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر حملے بھی ہوئے اور اس میں آگ لگا دی گئی۔
سلوان مومیکا ایک عراقی عیسائی تھا جس نے سویڈن میں پناہ لی اورگزشتہ برس اس نے قرآن مجید کو جلانے اور اس کی بے حرمتی کا بار بار ارتکاب کیا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا۔ سویڈن کی حکومت نے حالانکہ قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت کی لیکن اس نے اپنے ملک میں آزادی اظہار رائے جیسے امور پر بھی زور دیا اور جب اس شخص کو مظاہرے کی اجازت ملتی تھی تو پولیس اس کی حفاظت کرتی تھی۔
آپ کا تبصرہ