روزنامہ گارڈین کے مطابق، یہ کیس فلسطینی شہریوں اور فلسطینی نژاد امریکی شہریوں نے درج کیا ہے۔
اس کیس میں امریکی وزارت خارجہ کو امریکی قوانین کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے اسرائیل کو مالی امداد پہنچانے کے لیے ملزم ٹہرایا گیا ہے۔
منگل کے روز درج ہونے والے کیس میں امریکہ کے لیہی قانون (The Leahy Law) کا حوالہ دیتے ہوئے آیا ہے کہ حالانکہ صیہونی حکومت نے کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے لیکن امریکی وزارت خارجہ نے صیہونی حکومت کے ایک بھی ادارے پر ان جرائم کے لیے پابندی عائد نہیں کی ہے جو کہ "لیہی قانون" کو واضح طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مذکورہ قانون کے تحت اگر کسی حکومت کے خلاف یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، تو امریکہ کو اسے اپنی امداد بند کرنا ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ کیس درج کرنے والوں میں ریاضی کے ایک ٹیچر کا نام بھی دیکھا جاسکتا ہے جن کے اہل خانہ کے 20 افراد کو اسرائیل نے غزہ میں شہید کردیا۔ شکایت کرنے والوں میں "الحق" فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ شوان جبارین کا نام بھی ہے جنہیں صیہونی حکومت نے غرب اردن میں 6 سال تک فرد جرم عائد کیے بغیر قید کیا ہوا تھا۔
"احمد مور" ایک اور فلسطینی نژاد امریکی شہری ہیں جن کے اہل خانہ اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے جلاوطن ہیں۔ مجموعی طور پر پانچ افراد نے مشترکہ طور پر امریکی وزارت خارجہ کے خلاف یہ کیس درج کیا ہے۔
یاد رہے کہ 185 امریکی وکیلوں کے اعلان کے باوجود کہ اسرائیل نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، واشنگٹن اپنے ہی قوانین کو خاموشی سے نظرانداز کرتے ہوئے تل ابیب کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔
امریکی حکام صیہونی حکومت کی 12 کھلی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تل ابیب کی سالانہ اربوں ڈالر پر مشتمل مالی اور اسلحہ جاتی مدد کر رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ