اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے وزیر صنعت نے عالمی نظام کو امن، استحکام اور سلامتی کے شعبوں میں درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں شنگھائی تعاون تنظیم جیسے علاقائی اتحاد رکن ممالک کے اقتدار اعلی، ارضی سالمیت، ہمسائگی اور عدم مداخلت جیسے معاملات کو یقینی بناسکتے ہیں۔
سید محمد اتابک نے کہا کہ درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نئے طریقہ کار اختیار کرنا ہوں گے۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کو ملٹی پولر دنیا کے اہم ارکان میں قرار دیا اور کہا کہ ایسے ماحول میں اس تنظیم کے ارکان علاقائی اور عالمی سطح پر موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت علاقے کو تکفیری دہشت گردی، انتہاپسندی، منشیات کی اسمگلنک اور دیگر منظم جرائم کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران انتہائی سنجیدہ ہے۔
ایران کے وزیر صنعت نے اس موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ایران کے خلاف صیہونیوں کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے، اس تنظیم کے ارکان سے صیہونیوں کے وحشیانہ جرائم اور حرکتوں کے خلاف سنجیدگی سے پیش آنے اور واضح موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے ایران کی اسٹریٹیجک اور جیوپالیٹیکل گنجائشوں، ماہر افرادی قوت، توانائی کے شعبے میں صلاحیتوں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور بنیادی تنصیبات اور ٹرانزٹ کے وسائل کی فراوانی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے انتہائی مفید اور موثر قرار دیا۔
ایران کے وزیر صنعت، تجارت اور کان کنی نے ایران اور شنگھائی رکن ممالک کے مابین تجارت میں فروغ پر بھی زور دیا اور کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تہران اور اس تنظیم کے دیگر ارکان کے مابین تجارت کا حجم 5/5 فیصد بڑھا ہے یعنی 37 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک کانسرشیئم، تجارتی کمیشنوں اور دیگر طریقہ کار کے ذریعے تجارت کے اس حجم کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں اور ترقی پزیر ممالک من جملہ ایران کے خلاف واشنگٹن کی معاشی دہشت گردی کے مقابلے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کے اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ امریکہ کی جانب سے عائد شدہ پابندیوں کا مقابلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف میں شامل ہونا چاہئے۔
آپ کا تبصرہ