ارنا کے مطابق سید عباس عراقچی نے جو مسقط گئے ہوئے ہیں، پیر 14 اکتوبر کو ایران اور امریکا کے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا کہ عمان نے ہمیشہ علاقے کے مسائل کے حل میں بڑی مدد کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسقط نے ایران اور امریکا کے تعلق سے بھی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پیغام رسانی کے ذریعے یا مذاکرات کے لئے حالات سازگار بناکر مثبت کردار ادا کرے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عمان کا یہ کردار ماضی سے چلا آرہا ہے اور گزشتہ حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا جو مسقط پروسیس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ اس عمل میں عمان کے توسط سے ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ رابطہ برقرارہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حال حاضر میں علاقے کے خاص حالات کی وجہ سے مسقط پروسیس رک گیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ہم مذاکرات کے لئے حالات سازگار نہیں دیکھ رہے ہیں، یہ وقت گزرجانے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ ہم دوبارہ یہ پروسیس شروع کریں یا نہ کریں اور اگر شروع کریں تو مذاکرات کا طریقہ کار کیا ہو۔
سید عباس عراقچی نے اس سوال کے جواب میں کہ عمان کے دورے میں امریکیوں کے لئے کوئی پیغام بھیجا گیا ہے یا نہیں، کہا کہ اس دورے میں اس حوالے سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور ہم نے کسی بھی ملک کے لئے کوئی پیغام ارسال نہیں کیا ہے لیکن علاقے میں اور دوسرے ملکوں کے ساتھ جو تبادلہ خیال اور مشارتیں انجام پائی ہیں، ان میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ٹھوس انداز میں بیان کیا اور ہم نے یہ درخواست کی ہے کہ ہمارے اس موقف کی اطلاع سب کو دے دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ امریکا کو بھی، یورپی ملکوں کو بھی اور علاقے کے ممالک کو بھی معلوم ہوجانا چاہئے کہ ایران کا موقف کیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف بہت شفاف ہے اور ہم نے بارہا اس کو دوہرایا بھی ہے کہ ہم جنگ اور لڑائی نہیں چاہتے، اگرچہ ہم اس کے لئے بھی پوری طرح تیار ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ڈپلومیسی بروئے کار لائی جائے اور جنگ کی روک تھام کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور عمان کے روابط دوستی، باہمی احترام اور بہت سے ایسے مسائل میں مشترکہ تعاون پر استوار ہیں جو دونوں دوست ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کرسکتے ہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ عمان نے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا ۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال بہت خطرنا ک ہوگئی ہے اور ممکن ہے کہ وسیع تر جنگ کے دہانے پر پہنچ جائے، ان حالات میں ڈپلومیسی بڑے بحرانوں اور جنگ وکشیدگی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
آپ کا تبصرہ