صدر ایران: خطے کے موجودہ حالات،  صیہونی حکومت کی جانب سے اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کے غلط استعمال کا منہ بولتا ثبوت

تہران – ارنا- صدرمملکت  نے اس بات پر زور  دیا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل برادرانہ طریقے سے حل کرنا اور عملی طور پر عالم اسلام کی طاقت کو بڑھانا چاہیے۔

صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ جو کچھ علاقے میں ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی حکومت، اسلامی ملکوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، غزہ، لبنان اور شام پر جارحیت اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔

صدر ایران نے بدھ کی شام، ترکی کے وزیر تجارت عمر بولات سے ملاقات میں، کہا کہ میں نے جناب اردوغان سے اپنی ملاقاتوں میں ہمیشہ اسلامی ملکوں کے تعلقات میں توسیع پر زور دیا ہے اور میرا دل کی گہرائی سے یہ ماننا ہے کہ اسلامی ملکوں کو باہمی تعلقات میں زیادہ سے زیادہ توسیع پیدا کرنی چاہیے۔

صدر مملکت نے مزید کہا: اگر اسلامی ممالک تجارتی منڈیوں سے لے کر نقل و حمل کے راستوں تک اپنی صلاحیتوں اور دیگر وسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ تقسیم کریں تو اس سے یقینی طور پر تمام اسلامی امت کو فائدہ پہنچے گا اور اس سے عالم اسلام کے تمام ممالک  مضبوط ہوں گے  اور صیہونی حکومت و  دوسری طاقتیں بھی مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کی جرأت نہیں کریں گی۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل برادرانہ طور پر حل کرنا چاہیے اور زبانی بیان بازی کے بجائے عملی طور پر عالم اسلام کو مضبوط کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا: جو کچھ علاقے میں ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی حکومت، اسلامی ملکوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، غزہ، لبنان اور شام پر جارحیت اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اگر ہم اپنے اختلافات ختم کر دیں تو عالم اسلام پہلے سے کئ گنا زیادہ طاقتور ہو جائے گا اور دنیا بھی برابری کے موقف سے ہم سے بات کرے گی۔

صدر ایران نے کہا کہ ہم ديگر ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی طرح ترکیہ کے ساتھ بھی اپنے مالی تعلقات کے لئے ایک اصول کے تعین کے خواہاں ہیں تاکہ باہمی تجارت سے ڈالر کو ہٹایا جا سکے اور ہم ترکیہ کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات میں توسیع کے خواہاں اور اس کے لئے آمادہ ہيں۔

اس ملاقات میں ترکی کے وزیر تجارت نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے لیے 30 ارب ڈالر کے ہدف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ  ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترکی ایران کے ساتھ  انرجی کے شعبے میں  25 سالہ تجارتی معاہدے کی تجدید کا خواہاں ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .