ارنا کے مطابق فائنینشیل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ایران کے مقابلے میں اسرائیلی حکومت کے آئرن ڈوم اور دیگر ڈیفنس سسٹم کو ناقص قرار دیا ہے۔
فائنینشیل ٹائمز نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے پاس جو ڈیفنس سسٹم ہیں وہ ناقص ہیں اور ایران کے گزشتہ جوابی حملے ( آپریشن وعدہ صادق) کے وقت برطانیہ، فرانس اور علاقے کے بعض عرب ملکوں نے ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں کو نشانہ بناکر اسرائیل کی مدد کی تھی۔
فائنینشیل ٹائمز نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کے اسرائیلی اقدام کے جواب میں ایرانی حملے کا خوف تل ابیب پر طاری ہے، لکھا ہے کہ واشنگٹن اس وقت بھی کوشش کررہا ہے کہ اس بار بھی ایرانی حملے سے اسرائیل کی حفاظت کے لئے اتحاد تشکیل دے لے۔
فائنینشیل ٹائمز نے حزب اللہ کے حملوں کے مقابلے میں اسرائیلی ڈیفنس سسٹم کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل کے جنگی طیارے اور آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم اب تک حزب اللہ کے ڈرون حملوں کو روکنے میں بھی ناکام رہے ہیں اور حزب اللہ کے ڈرون طیاروں نے حالیہ مہینوں مییں شمالی مقبوضہ فلسطین میں کافی تباہی مچائی ہے۔
فائنینشیل ٹائمز نے مقبوضہ فلسطین کے مرکز میں حساس فوجی مراکز کی فلم بنانے میں حزب اللہ کے ڈرون طیاروں کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف محاذوں پر ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایک ساتھ وسیع حملہ اسرائيل کے ڈیفنس سسٹم کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایران کے آپریشن وعدہ صادق کے وقت ایران کے ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو راستے میں ہی نشانہ بنانے میں صیہونی حکومت کے ساتھ علاقے کے بعض ملکوں کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت اسرائیل زیادہ الگ تھلگ ہوچکا ہے اور فوجی مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت اسرائیل ایران کے حملوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے غزہ میں صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم پر خطے کے ملکوں کے عوام کی برہمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علاقے کے ممالک، غزہ میں انسانی جانوں کے بہت زیادہ نقصان پر اپنے عوام کی برہمی اور ایران کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے تہران تل ابیب تصادم سے خود کو الگ رکھنا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ اردن اور سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی فضائی حدود جنگی زون میں تبدیل ہوجائيں اور مصر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے تشکیل پانے والے اتحاد میں شامل نہیں ہوگا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ایران کا حملہ اچانک ، اور زیادہ وسیع اور طولانی ہوسکتا ہے اور چند گھنٹوں کے بجائے چند دنوں پر مشتمل ہوسکتا ہے اور عراق، یمن، شام اور لبنان میں اس کے اتحاد بھی اس حملے میں شامل ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ