پاکستان کی وزارت خارجہ کے دفتر سے ارنا کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کےساتھ 13 مئی سے شروع ہونے والے اسٹریٹجک مذاکرات کے نئے دور میں شرکت کے لیے بیجنگ کے 4 روزہ دورے پر جا رہے ہیں جہاں وہ دیگر چینی اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کرینگے۔
اس دورے میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے دورہ چین کی تیاریوں کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی بھی وزیر اعظم پاکستان کے آئندہ دورے کے ایجنڈے کے ساتھ بیجنگ جا چکے ہیں۔
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان گہرے تعلقات تاریخی اور دوستانہ ہیں، خاص طور پر سیکورٹی، ملٹری، ڈیفننس اور اکانومی کے شعبوں میں، جہاں نئی دہلی کے ساتھ مقابلے نے شروع سے ہی ایک اہم محرک کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کے نازک تعلقات میں مسلسل اتار چڑھاؤ کو بھی پاک چین تعلقات کو مضبوط بنانے کا ایک عنصر سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ مارچ کے وسط میں چین کی شراکت سے پاکستان میں "حیدر" نامی انتہائی جدید ٹینک بنانے کے منصوبےکی نقاب کشائی کی گئی۔ رواں سال مئی میں عالمی معیار کی ہائی ٹیکنالوجی سے لیس پہلی چینی ساختہ فوجی آبدوز پاکستان نیوی کے حوالے کی گئی اور گزشتہ ہفتے چین کی مدد سے پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار چاند پر پروب بھیجی تھی۔
دونوں پڑوسی ممالک پاک چین جوائنٹ اکنامک کوریڈور پراجیکٹ کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسلام آباد اور بیجنگ کی جانب سے اسٹریٹجک مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے کی کوشش ایسے وقت میں ہے جب پاکستان میں چینی شہریوں پر حالیہ دہشت گردانہ حملے نے ایک بار پھر چینی شہریوں کے خلاف بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرات اور پاکستان میں ان کی اقتصادی منصوبے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں چھپے چیلنج کی عکاسی کی ہے۔
چین پاکستان میں اپنے شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں اضافے پر انتہائی پریشان ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے چینی انجینئرز اور ورکرز کی حفاظت اور مشترکہ اقتصادی منصوبوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے وعدے کے باوجود پاکستان کے مختلف علاقوں میں چینیوں کے خلاف ہلاکت خیز کارروائیاں کی گئیں۔
اس سال 7 اپریل کو شمال مغربی پاکستان میں ایک خودکش حملے میں 5 چینی انجینئرز اور ایک پاکستانی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر اسلام آباد، دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان کو اس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق چینی شہریوں پر حملے کا منصوبہ افغانستان میں بنایا گیا تھا اور اس دہشت گردانہ حملے میں افغان شہری بھی ملوث تھے جبکہ افغانستان کی طالبان حکومت کی وزارت دفاع کے ترجمان نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
گزشتہ اگست کے وسط میں صوبہ بلوچستان میں ہونے والے چینی شہریوں پر حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروپ نے قبول کی تھی۔
اسکے علاوہ 2021 میں داسو ڈیم کے تعمیراتی منصوبے کے انجینئروں اور ورکرز کو لے جانے والی بس پر دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں 9 چینی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
چینی شہریوں کے خلاف ان حملوں پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی کمزوری کے حوالے سے بیجنگ نے اسلام آباد سے شدید احتجاج کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ