صدر سید ابراہیم رئيسی نے جمعرات کی شام اسلامی ممالک کے سفراء اور نمائندوں سے ملاقات میں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں استحکام کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قرار دیا اور کہا: اسلامی جمہوریہ ایران تمام پڑوسیوں اور اسلامی ملکوں کے ساتھ تعاون کا استقبال کرتا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات،اسلامی ملکوں کے ساتھ تعمیری تعاون اور مشترکہ اہداف کی تکمیل ہے۔
صدر نے کہا کہ ہمارے علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ اغیار کی مداخلت ہے۔ اگر امور خود اسلامی ملکوں کے ذمہ ہوتے تو یہ ممالک باہمی ہی نہيں بلکہ علاقائی اور غیر علاقائي مسائل بھی باہمی مشورے سے حل کر لیتے ۔
انہوں نے کہا: غیر علاقائی طاقتیں، اسلامی ملکوں کے بجائے اپنی پالیسیوں، نظریات اور مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور کسی بھی حالت میں اسلامی امت اور اسلامی ملکوں کے مسائل کے حل اور ان کے مفادات کے بارے میں نہيں سوچتیں۔
صدر نے سوال پوچھا کہ اگر اللہ پر توکل اور قرآن مجید کی نورانی آیات پر اعتماد کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد ہوتا تو کیا آج فلسطین اور غزہ میں اس حد تک ظلم و ستم، مذموم حرکتیں، عالمی قوانین، اخلاقی و انسانی اصولوں کے منافی اقدامات اور اتنے بڑے پیمانے پر ہولناک جرائم و نسل کشی ہوتی؟
انہوں نے کہا: تاریخ میں خواتین اور بچوں کے خلاف اس حد تک مظالم کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ یہ اتحاد علاقے میں دہشت گردی اور آشفتگی کا سد باب اور بہت سے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
صدر نے کہا: آج دنیا کے ہر ملک میں سب سے زیادہ صیہونی حکومت سے نفرت کی جاتی ہے اور پوری دنیا کے عوام کی نظروں میں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان اور ان کا تعلق چاہے جس قوم و ملت و دین سے ہو وہ سب امریکہ کو ظالم کا حامی اور ایسا ملک سمجھتے ہيں جو اپنی کھوکھلی طاقت کو صیہونی حکومت کی حمایت کے لئے استعمال کرتا ہے۔
صدر مملکت نے کہا: آج پوری دنیا، فلسطینی قوم کے دشمنوں سے نفرت کرتی ہے اس لئے ہماری نظر میں اس سال کا عالمی یوم قدس، مختلف انداز کا ہوگا۔
آپ کا تبصرہ