2019 میں ایران کا سرکاری دورہ کرنے والے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نے تہران میں خطاب کے دوران بر صغیر میں فارسی کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرانگریز بر صغیر میں نہ آئے ہوتے تو آج ہمیں مترجم کی ضرورت نہ ہوتی اور ہم سب فارسی میں بات کرتے۔ فارسی 6 سو سال تک بر صغیر کی سرکاری زبان رہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ صدر عارف علوی نے بھی باکو میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے فارسی زبان سیکھنے کی کوشش کے بارے میں بڑی دلچسپ بات کی تھی۔ پاکستان کے صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ کاش میں اپنی والدہ سے جو فارسی ماسٹرز تھیں ان کا تعلق کرمان سے تھا، فارسی سیکھ لیتا آج میں آپ کے ساتھ فارسی میں بات کرتا۔
پاکستان میں فارسی سکھانے کی ترویج در اصل دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کو سمجھنے کے لیے موثر قدم شمار ہوتا ہے اور اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کی جانا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان لاتعداد ثقافتی، تاریخی، مذہبی اور سماجی مماثلت پائی جاتی ہیں۔
ایران اور پاکستان کی ہمسایہ قوموں کے درمیان عوامی تعلقات کی تقویت کی غرض سے، اسلام آباد کے سب سے بڑے ثقافتی مرکز نے اپنے ممبران کے لیے جن میں سیاسی، سماجی شخصیات، سرکاری عہدیدار اور وکلا شامل ہیں، فارسی زبان سکھانے کے کورس کا آغاز کیا ہے۔
فارسی سکھانے کے اس کورس کی افتتاحی تقریب میں ایران کے سفیر رضا امیر مقدم، کلچرل اتاشی احسان خزاعی اور پاکستان کے معروف قانون داں اور سابق وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ظفراللہ خان نے بھی شرکت کی۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ایران کا اپنے ارد گرد کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ ایران ایک ایسا ملک ہے جواپنے اصلی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ جن سے اس کی زمینی سرحدیں ملتی ہیں، اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے ایران اور پاکستان کے تعلقات ديگر ملکوں کے مقابلے میں انتہائي بے مثال ہیں اور ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تہذیبی اور لسانی رشتے بھی بے بدیل ہیں۔ ان کے درمیان تعلقات صرف اعلی حکام کے درمیان رابطوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بھی اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور سرزمین ایران تہذیب و ثقافت کے لیے پاکستانیوں میں ابدی عشق دونوں ملکوں کے دیرینہ تعلقات اور تعاون کے زیادہ سے زیادہ فروغ کی مستحکم بنیاد شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت کے قلب میں واقع اسلام آباد کلب قومی اسمبلی کے چارٹر کی تحت قائم کیا گيا ہے اور مختلف سرکاری محکموں اور مسلح افواج کے اعلی افسران، جج صاحبان کے علاوہ علمی ، سیاسی اور ثقافتی رہنما اس کلب کے ممبران ہیں۔
اسلام آباد کلب کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ایک رکن، شاعر، ادیب اور منصف ظفراللہ خان نے فارسی زبان کے کورس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین ایران کی بھرپور تہذیت اور ثقافت خاص طور سے فارسی زبان سے آشنائي کے بغیر ہمارے ملک کی ثقافتی اور ادبی جڑیں کمزور پڑ جائيں گی۔
انہوں نے فارسی زبان سیکھنے کی جانب اہم پاکستانی شخصیات کے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کورس ایک ماہ میں مکمل ہوجائے گا اور لوگوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہمیں اگلے ماہ سے دوسرا کورس شروع کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں متعین ایران کے سفیر نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کو دو دوست اور آزاد قوموں کی حثیت سے اپنی طاقت میں اضافے اور خوشحالی کے فروغ کے لیے ہمہ گیر پیش رفت کی ضرورت ہے اور ہمارے درمیان پائے جانے والے تہذیبی اور عوامی رشتے طویل المدت اور وسیع تر تعاون کا راستہ ہموار کرسکتے ہیں۔
امیری مقدم نے کہا کہ ایران اور پاکستان، نیز جنوب مشرقی ایشیا کا خطہ مشترکہ زبان اور تہذیب کا حامل ہے اور فارسی زبان سے پاکستان کا عشق اور رجحان مشترکہ تہذیب و تمدن کی جانب واپسی کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خطی، تہذیبی اور تاریخی یادگاروں کا ایک بڑا حصہ برصغیر میں موجود ہے لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام دیگر قوموں کے مقابلے میں ہماری ثقافت کے زیادہ دلدادہ ہیں اور اسے پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ثقافتی ہم آہنگی کا یہ موقع فراہم کیا ہے۔
ایران کی ثقافتی اتاشی نے بھی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں ایران کا ثقافتی مرکز جہاں ہمسایہ ملک پاکستان میں فارسی زبان کی تعلیم کے حوالے سے خدمات انجام دے رہا ہے وہیں پاکستانی طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو فارسی سکھانے کے لیے انجام پانے والی دیگر تعلیمی سرگرمیوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق فارسی تقریبا ساڑھے 8 کروڑ ایرانیوں کی مادری زبان ہے جبکہ پوری دنیا میں تقریبا 22 کروڑ لوگ فارسی میں بات کرتے ہیں جنکی بڑی تعداد ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، بحرین، عراق اور جمہوریہ آذربائيجان میں آباد ہے۔
اس خطے کی قومی اور علاقائی زبانوں میں فارسی کی تاثیر کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ زبان صدیوں تک خطے میں آباد اقوام کی سرکاری، ادبی اور بین الاقوامی زبان کے طورپر رائج رہی ہے۔ بین النہرین سے لیکر وسطی اور ما ورالنھر تک ، تاریخ کے بڑے دور میں فارسی نے مادری زبان کا کردار ادا کیا ہے۔
دین اسلام فارسی زبان کے ذریعے ہی بر صغیر پہنچا اور تہذیب ساز، ملت ساز اور انقلاب آفریں دین کے طور پر خطے میں سیاسی، سماجی اور تاریخی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنا۔ پاکستان کی تاسیس بھی برصغیر میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آمد کے تاریخ ساز اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آپ کا تبصرہ