بائیڈن انتظامیہ کو جوہری معاہدے سے باہر بھی ایران کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے طریقے نکالنے کی کوشش کرنی ہوگی: امریکی تجزیہ کار

تہران۔ ارنا- امریکی تجزیہ کارنے ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو جوہری معاہدے سے باہر بھی ایران کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے طریقے نکالنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

ایک امریکی تجزیہ کار اور خلیج فارس کے حالات کے تجزیہ کی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور مغربی ایشیا (مشرق وسطی) کے مسائل کے محقق جورجیو کافیرو نے نیویارک میں ارنا رپورٹر کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن ٹیم کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ایران جوہری معاہدے کا جائزہ لینے کیلئے سفارتکاری کا راستہ اپنائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ امریکہ اور ایران کے درمیان سفارت کاری مشکل ہے، لیکن اگر واشنگٹن تہران کو اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ترغیب دینے کے طریقے تلاش کر سکتا ہے، اور اگر ایران کی جوہری سرگرمیاں زیادہ شفاف ہونے کے بدلے میں تہران کے خلاف کچھ پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں، حتی کہ اگر یہ اقدامات جوہری معاہدے سے باہر ہوں تو پھر بھی سے مثبت نتائج نکلیں گے۔

کافیرو نے"مختلف شعبوں میں امریکہ کے وعدے کی خلاف ورزی، خاص طور پر کچھ بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری کے پیش نظر، کیا واشنگٹن کسی بھی معاہدے اور مذاکرات کے لیے قابل اعتماد فریق ہے؟"، کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر چار سال بعد، امریکہ میں ایک صدارتی انتخاب ہوتا ہے، اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسی اہم طریقوں سے تبدیل ہو سکتی ہے اس پر منحصر ہے کہ کون سا امیدوار جیتتا ہے اور وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتا ہے۔ اوباما انتظامیہ کا ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ جوہری پر جوہری مذاکرات اور پھر ان کے ساتھ کثیر الجہتی معاہدے پر دستخط، اور ٹرمپ انتظامیہ میں اس معاہدے کی تباہی اس پالیسی کی تبدیلی کی صرف ایک مثال ہے۔

امریکی تجزیہ نگار نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کے خلاف مغربی دشمنی کی بنیادی وجہ کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ برسوں سال میں برسر اقتدار شاہ، امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کیلئے مفید تھاسرد جنگ کے دوران اور مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ اور عرب قوم پرستی کے بارے میں امریکی خدشات کے درمیان، شاہ واشنگٹن کا ایک اہم شراکت دار تھا۔ سابق امریکی صدر ریچارد نیکسون کے مطابق، ایران، ترکی اور اسرائیل عرب خطے میں واشنگٹن کی "ڈیوٹی پولیس" تھے۔

کافیرو نے مزید کہا کہ 1979 میں ایران کی دو ہزار 500 سالہ بادشاہت کا زوال امریکہ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ اسلامی انقلاب کا خطے پر بڑا اثر پڑا جس سے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بہت ناخوش تھیں۔1979  کے بعد سے، واشنگٹن نے ایران کو اپنے مفادات اور مشرق وسطی اور اس سے باہر کے اپنے بہت سے اتحادیوں اور شراکت داروں کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا ہے؛ کئی دہائیوں سے، ایران اور امریکہ کے خارجہ پالیسی کے پروگرام، بعض معاملات میں دونوں ممالک کے قومی مفادات کی ہم آہنگی جیسے 2001 میں طالبان کی برطرفی کے باوجود، ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں۔

انہوں نے آپ کے خیال میں قرآن پاک کو جلانے اور مسلمانوں کی مقدسات کی توہین کو مغربی ممالک کی حمایت کیوں حاصل ہے؟ کے سوال کے جواب میں کہا کہ مغرب میں ایسے گھناؤنے کام کرنے والے انتہا پسندی ہیں۔ لیکن، بڑی افسوس کی بات ہے کہ انتہا پسند بااثر ہو سکتے ہیں اور سویڈن جیسے ممالک میں تعصب اور اسلامو فوبیا کو پھیلانے کے لیے آزادانہ تقریر کے تحفظات کا استعمال کر سکتے ہیں۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .