یہ بات منصور احمد خان نے منگل کے روز ارنا نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے مختلف حصوں بالخصوص کابل میں جو تلخ واقعات دیکھ رہے ہیں جسے افغانستان کو اپنے اہم پڑوسیوں یعنی ایران اور پاکستان کے ساتھ تقسیم کرنے کی منصوبہ بند سازش ہے۔
احمد خان نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کے خلاف تہران، کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کو مضبوط کرنا خطے میں سازشوں پر قابو پانے اور پڑوسیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ تہران اور اسلام آباد نے خطے میں عدم تحفظ کے عوامل کے خلاف مشترکہ تعاون کے لیے موثر میکانزم استعمال کیا ہے کیونکہ داعش کا رجحان ایران اور پاکستان کے لیے باہمی تشویش کا باعث بن چکا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ میکانزم کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون کو اہمیت دیتا ہے اور اس تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستانی سفارتکار نے کہا کہ دہشت گردی نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، کابل میں پاکستان کے ناظم الامور پر حالیہ حملے کے بعد افغان فریق نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس کی مکمل تحقیقات کرے گا اور سفارت کاروں اور رہائشی ممالک کے سفارتی مقامات کی سکیورٹی میں اضافہ کرے گا۔
انہوں نے دہشت گردی اور تحریک طالبان پاکستان یا بلوچ علیحدگی پسند عناصر سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے عارضی حکمرانوں سے مزید سنجیدہ تعاون کا بھی مطالبہ کیا جو پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر نے مزید کہا کہ سیکورٹی خطرات اور دہشت گردی پر قابو پانا خطے کے عوام کے باہمی فائدے کے لیے تجارت، ٹرانزٹ اور علاقائی اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ