یہ بات سید علی خامنہ ای نے آج بروز جمعہ پیغمبر اسلام (ص) اور امام صادق(ع) کے یوم ولادت کے موقع پر اسلامی نظام کے عہدیداروں اور 33 ویں اسلامی اتحاد بین الاقوامی کانفرانس کے مندوبین کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے کہی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ پیغمبر اکرم کی شخصیت پوری دنیا میں ایک منفرد شخصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے آثار اس کی زندگی کے تمام ادوار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عید منانے کا مطلب صرف جشن نہیں ہے۔ عید سبق لینے اور پیامبر کو ماڈل کےطور پر قرار دینے کے لیے ہے۔
انہوں نے ہم بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس سے پہلے دنیا دو بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں تھی: امریکہ کی طاقت اور سابق سوویت یونین کی طاقت۔ دونوں طاقتین صرف اسلامی جمہوریہ کے ساتھ مخالفت میں متفق تھیں۔ان کا خیال تھا کہ وہ اس پودے کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔ آج یہ پودا ایک درخت بن چکا ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ اتحاد کا مطلب ہے امت اسلامیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کی نشاندہی کرنی چاہیے کہ امت اسلامیہ کے مفادات کہاں اور کیا ہیں؟ پھر اس تناظر میں اقوام عالم کو ایک دوسرے سے اتفاق کرنا چاہیے، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ امت اسلامیہ کو آج کس چیز کی ضرورت ہے، کس سے دشمنی کرنی چاہیے، کس سے دوستی کرنی چاہیے اور کیسے دوستی کرنی چاہیے اور اتحاد سے مراد سامراج منصوبوں کے خلاف مشترکہ کارروائی۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ آج یہ بات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ یک قطبی ہونے اور ایک یا دو طاقتوں کو ملکوں اور قوموں پر مسلط کرنے کا مسئلہ اپنی قانونی حیثیت کھو چکا ہے، یعنی قومیں ہوشیار ہوچکی ہیں۔ یک قطبی نظام کو مسترد کر دیا گیا ہے، یہ آہستہ آہستہ مزید مسترد ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے قرآن مجید کی آن آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں امت مسلمہ کے مصائب اور سختیوں کو پیغمبر اسلام کے لیے دردناک اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے باعث مسرت بتایا گيا ہے، آج کی دنیا میں امت اسلامیہ کے مصائب کے اسباب کا تجزیہ کیا اور کہا: عالم اسلام کی مشکلات اور سختیوں کے متعدد اسباب ہیں اور ان میں سے ایک بہت ہی اہم سبب، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور ایک دوسرے سے ان کی دوری ہے۔
قائد انقلاب نے طاقت کے نئے آرڈر میں کردار ادا کرنے اور اونچی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے امت اسلامی کی سب سے اہم ضرورت، اتحاد و یکجہتی کو بتایا اور اس اہم ضرورت کی تکمیل میں عالم اسلام کے دانشوروں، اہم شخصیات اور روشن فکر جوانوں کے انتہائي اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ عملی جدوجہد اور دشواریوں اور دباؤ کے مقابلے میں استقامت کی شرط کے ساتھ وحدت اسلامی اور نئي دنیا میں مؤثر شراکت داری، ممکنہ امر ہے اور اس کا کھلا نمونہ اسلامی جمہوری نظام ہے جو ایک ننھا پودا تھا اور دو بڑی طاقتوں کے سامنے جھکا نہیں بلکہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائي میں ڈٹ گيا اور اب وہ ننھا پودا ایک تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے جسے کوئي اکھاڑنے کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتا۔
انہوں نے یہ سوال کرتے ہوئے کہ اتحاد کا مطلب کیا ہے؟ کہاکہ عالم اسلام میں وحدت و اتحاد کے سلسلے میں جو چیز پیش نظر ہے، وہ نسلی اور جغرافیائي اتحاد نہیں بلکہ امت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے لیے اتحاد ہے۔ امت مسلمہ کے مفادات کا صحیح ادراک اور یہ جاننا کہ مسلمانوں کو کن لوگوں سے اور کس طرح سے دوستی یا دشمنی کرنی چاہیے اور سامراج کی سازشوں کے مقابلے میں مشترکہ لائحۂ عمل تک پہنچنا، اتحاد کو عملی جامہ پہنانے میں بہت اہم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مشترکہ لائحۂ عمل میں اہم اور بنیادی نکتہ، دنیا میں سیاسی آرڈر کو تبدیل کرنے کے بارے میں یکساں سوچ تک پہنچنا ہے، کہاکہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے اور یک قطبی نظام، اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ عالمی سامراج کا تسلط بھی روز بروز اپنی قانونی حیثیت کھوتا جا رہا ہے، بنابریں ایک نئی دنیا، وجود میں آتی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں امت اسلامی ایک اعلی پوزیشن حاصل کر سکتی ہے اور نئي دنیا میں آئيڈیل اور علمبردار بن سکتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ متحد ہو جائے اور اپنے آپ کو تفرقے اور امریکا، صیہونیوں اور بڑی کمپنیوں کے وسوسوں سے دور رکھے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وحدت اسلامی کے عملی جامہ پہننے کے لیے، مذہبی اختلافات کو تنازعے اور ٹکراؤ میں بدلنے سے روکنا ضروری ہے، کہاکہ امریکی اور برطانوی سیاستداں، جو سرے سے اسلام کے مخالف ہیں، اپنی نشستوں میں شیعہ سنّی کی باتیں کرنے لگے ہیں جو بہت ہی خطرناک بات ہے۔
انہوں نے بعض اسلامی ملکوں کی جانب سے صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کو، سب سے بڑی غداریوں میں سے ایک بتایا اور کہاکہ شاید کچھ لوگ یہ کہیں کہ موجودہ حالات میں اسلامی ملکوں کے بعض سربراہوں کے ہوتے ہوئے، اتحاد قائم ہونا ناممکن ہے لیکن اسلامی دنیا کے دانشور، علماء، مفکرین اور اہم شخصیات، ماحول کو دشمن کی مرضی کے برخلاف بنا سکتی ہیں اور اس صورت میں، اتحاد کو عملی جامہ پہنانا زیادہ آسان ہوگا۔
سید علی خامنہ ای نے "انگریزی شیعہ" اور "امریکی سنّی" کی اپنی پرانی اصطلاح کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ اس میں تحریف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ "انگریزی شیعہ" اور "امریکی سنّی" سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی پوزیشن، عہدے اور ملک میں داعش کی طرح لڑائي جھگڑے، تفرقے اور دوسروں کو کافر بتا کر، دشمن کی خدمت کرے۔
انہوں نے عراق اور شام میں داعش کے جرائم خاص طور پر افغانستان میں طلباء کے قتل عام پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا: شیعہ اور سنّی، دونوں طرف کچھ شدت پسند پائے جاتے ہیں جن کا تشیع اور تسنن سے کوئي تعلق نہیں ہے اور ان شدت پسندوں کو، اصل مذہب پر الزام تراشی کی راہ ہموار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور ان لوگوں سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جو ایک مسلک کی طرفداری کے نام پر، دوسرے مسلک کے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر مقامات پر سختیوں، دباؤ اور قتل عام میں روز بروز اضافے کو، امت اسلامیہ کے بکھراؤ کا نتیجہ قرار دیا اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے بہت زیادہ مشترکہ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اب تک، اسلامی اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے جس کا کھلا نمونہ، فلسطین میں سنّی بھائيوں کی بے دریغ حمایت ہے جو مستقبل میں بھی پوری قوت سے جاری رہے گي۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عالم اسلام میں تشکیل پانے والے استقامتی محاذ کو اسلامی جمہوریہ کی پوری حمایت حاصل ہے، کہاکہ ہم خداوند عالم کے لطف و کرم پر ایمان رکھتے ہیں اور وحدت اسلامی کی عظیم آرزو کے عملی جامہ پہننے کی طرف سے پرامید ہیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی۔
انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو انصاف، خرد پسندی، روحانیت اور اخلاقیات کا سب سے بڑا داعی بتایا اور تحریک پیغمبر کے دشمنوں کی جانب سے رسول اکرم کی ذات، شخصیت اور دعوت کو کچلنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آج بھی پیغمبر کے پیروکاروں کے مقابلے میں اسلام مخالف محاذ کی صف آرائی میں، ثقافتی و معاشی دہشت گردی کی شکل میں وہی کوششیں جاری ہیں لیکن جس طرح سے اسلام کے ابتدائي دور میں وہ لوگ، پیغمبر کی تحریک کو دنیا بھر میں پھیلنے سے نہیں روک سکے تھے، اسی طرح آج بھی وہ آنحضرت کے اقدار کی پابند ملت کو روک نہیں پائيں گے۔
انہوں نے ایرانی قوم سے دشمن کے کینے کی اصل وجہ، اس کی حیرت انگیز اور ہمہ گير پیشرفت کو بتایا اور کہاکہ نیویارک کے حالیہ دورے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے آپسی ملاقات میں معذرت طلب کی اور کہا کہ بہت زیادہ کوششوں کے باوجود وہ ایران کے خلاف کورونا سے متعلق پابندیوں کو ختم نہیں کرا سکے جس کے جواب میں، میں نے کہا کہ ایرانی قوم نے ہمیشہ ہی خطرے اور پابندی کو موقع میں تبدیل کیا ہے اور کورونا کے معاملے میں بھی، ویکسین تیار کرنے والے چھے مراکز کے تیزی سے کام کرنے کی وجہ سے ہم ویکسین برآمد کرنے والوں میں تبدیل ہو گئے اور آج ہم اس بیماری سے مقابلہ کرنے میں، دنیا کے سب سے کامیاب ملکوں میں شامل ہیں۔
ایرانی صدر مملکت نے ایران کی سائنسی پیشرفت، معاشی ترقی، افراط زر میں کمی اور تجارتی و عالمی تعاون میں اضافے کے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عوام کی جانب سے حکومت کا پورے خلوص سے ساتھ دیے جانے خاص طور پر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد میں تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ ایران کے دشمن حالیہ ہنگاموں میں بھی ملک کے لیے پریشانیاں کھڑی کرنا چاہتے تھے لیکن عوام نے صبر اور استقامت کے ذریعے انھیں پہلے کی طرح ناکام بنا دیا۔
صدر مملکت علامہ ابراہیم رئيسی نے حقائق کو چھپانے اور ماڈرن جاہلیت کے پھیلاؤ کو، عالم اسلام کے دشمنوں کے موجودہ ہتھکنڈوں میں شمار کیا اور کہاکہ اس ہتکھنڈے کا مقابلہ کرنے کا راستہ، اسلامی اتحاد کے محور پر بیداری کا فروغ اور تفرقے سے پرہیز ہے۔
آپ کا تبصرہ