ارنا رپورٹ کے مطابق، اس امریکی اخبار نے دس سالوں کے دوران، آہستہ آستہ اعتبار حاصل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ مٹھی بھر ٹوئٹر اکاؤنٹس یا پیلی سائٹس کی طرح کا رویہ اپنائے۔
لیکن نیوریارک ٹائمز نے گزشتہ رات کو تہران کے مقامی وقت کے مطابق (16 ستمبر 2022) کو ایک رپورٹ شائع کی جس کی نادرستگی 24 گنٹھوں سے کم، سب پر واضح ہوگئی اور اس کے غیر پیشہ ور صحافی نے اس اخبار کی ساکھ پر کاری ضرب لگایا۔
نیوریارک ٹائمر کے غیر پیشہ ور صحافی نے "چار خبردار ذرائع ابلاغ" کے مطابق، اپنی رپورٹ میں اس بات کا دعوی کیا تھا کہ قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای بیماری کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ طبی ماہرین کی ایک ٹیم کے زیر نگرانی میں ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے پچھلے ہفتے سمیت اس ہفتے کے تمام اجلاسوں کو منسوخ کردیا ہے۔
اس دعوے کے برعکس، آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ ہفتہ کی صبح کو اربعین حسینی (ع) کی مناسبت سے امام خمینی (رہ) کی حسینیہ میں منعقد کی گئی تقریب میں حصہ لے کر تقریر بھی کی اور اس طرح نیویارک ٹائمز کا دعوی غلط ثابت ہوکر اس کی ساکھ بھی برباد ہوگیا۔
جو لوگ سوشل نیٹ ورکس سے واقف ہیں وہ حالیہ مہینوں یا سالوں میں کئی بار سوشل نیٹ ورکس کے انتہائی پیلے اور بدنام صارفین کی طرف سے ایسی بے بنیاد افواہیں دیکھنی ہوں گی۔
معمول کی بات ہے کہ ایسی افواہوں کو مبصرین خاطر میں نہیں لاتے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نیویارک ٹائمز اور اس کے مصنف نے "ذرائع کے اعتبار" کے اہم معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی، جو کہ میڈیا کا ایک ناقابل تردید اصول ہے۔
جہاں تک ایسا لگتا ہے کہ نیویارک ٹائمز کے حوالے سے دیئے گئے چاروں ذرائع وہی زرد ذرائع تھے جنہوں نے اس صحافی اور اس کی نگرانی کرنے والوں کو خبر کی بجائے ایسی افواہ کی شکل دی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو کم قدر والے پیلے رنگ کے میڈیا کی سطح پر نیچے گردیا ہے۔
دوسری طرف اس حقیقت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بہرصورت امریکہ میں نیویارک ٹائمز اخبار ڈیموکریٹس کے قریبی اخبار کے طور پر جانا جاتا ہے، جو کہ اس وقت امریکہ میں برسراقتدار ہے۔
یہ حقیقت اس اخبار کی طرف سے فساد کے امکان پر غور کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ میڈیا کو یہ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ نیویارک ٹائمز کے کیلیبر کے کسی اخبار کی طرف سے اس طرح کا خوفناک گاف آیا ہوگا۔
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ایران میں سیاسی ماحول اور اقتصادی منڈیوں میں خلل ڈالنے سے امریکی حکمران ادارے کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ پابندیاں ہٹانے کے لیے بات چیت کے درمیان ہے، جو دراصل اپنی مرضی کی جنگ ہے، اور امریکی فریق نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی لالچ کے خلاف ایران کی مزاحمت کو توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
لیکن اس غیر پیشہ ور میڈیا والے کا واحد کارنامہ نیویارک ٹائمز کے لیے کئی سالوں کی ساکھ کھو دینا تھا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ