ایران کیساتھ دوطرفہ تعاون اور اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنائیں گے:پاکستانی وزیر خارجہ

تہران، ارنا - پاکستان کے وزیر خارجہ نے ایران کے اپنے سرکاری دورے کے دوران تہران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنانے کے لیے اسلام آباد کے عزم پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تجارت کو آسان بنانا اور ایران اور پاکستان کی حقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہماری ترجیح ہے۔

یہ بات بلاول بھٹو زرداری نے آج بروز منگل ارنا  کے نمائندے کے ساتھ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

 انہوں نے کہا کہ میں ایران کے اپنے سرکاری دورے کا منتظر ہوں اور مجھے یقین ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے اور عوامی رابطوں کو مضبوط کرنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

انہوں نے جو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی اقوام کے درمیان دیرینہ اور تاریخی تعلقات ہیں اور ہمارے درمیان مشترکہ روحانی، ثقافتی، تاریخی اور سماجی مشترکات موجود ہیں۔

ایران کیساتھ دوطرفہ تعاون اور اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنائیں گے:پاکستانی وزیر خارجہ

انہوں نے مزید بتایا کہ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اسلام میں پڑوسیوں کے خصوصی حقوق ہیں اس لیے میں ایران کے دورے کا منتظر ہوں۔

٭ایران کے ساتھ اقتصادی سفارت کاری کو تقویت دیں گے

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے اقتصادی سفارت کاری پر توجہ مرکوز کی ہے اور ہم پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کو مزید بڑھانے کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے سرحد پار مارکیٹوں کے منصوبے کی توسیع پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے خاص طور پر سرحد پار تجارت کو آسان بنانے کے لیے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ ایرانی حکام کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات بڑھانے کیلیے حقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھ سکیں۔

٭٭ہم ایران اور پاکستان کے درمیان سیاحت کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدہ عزم رکھتے ہیں

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان جغرافیہ، ثفافت اور تاریخ کے لحاظ سے مشترکات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اب بھی زیادہ امکانات موجود ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے افغانستان کی صورتحال کو تہران میں ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا ایک اہم موضوع قرار دیا اور مزید کہا کہ افغانستان میں ہونے والی پیش رفت سے پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک براہ راست متاثر ہوتے ہیں اس لیے پڑوسی ممالک افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ذمہ دار ہیں۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .