یہ بات ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نےجمعہ کے روز روسی ٹیلی ویژن روسیا الیوم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ تہران اور واشنگٹن کے تناؤ کو کم کر سکتی ہے، اور لیکن اس نے زور دیا کہ نئے امریکی صدر کے ساتھ ان کا کبھی قریبی تعلقات نہیں تھا۔
محمد جواد ظریف نے اس انٹرویو میں کہا کہ یہ سوچ غلطی ہے کہ بائیڈن کے ساتھ ان کا ذاتی تعلقات دو دیرینہ حریفوں کے مابین ایک بڑی سفارتی کامیابی میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ظریف نے کہا کہ بائیڈن کے ساتھ ان کے تعلقات کی تاریخ تقریبا 20 سال قبل شروع ہوئی تھی جب وہ اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی سینیٹر (بائیڈن) کے ساتھ ان کا تعلقات بہت پروفیشنل ہیں۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ یکطرفہ پابندیوں سے متعلق واشنگٹن کی موجودہ پالیسی بنیادی طور پر' معاشی جنگ" اور "معاشی دہشت گردی" ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے بائیڈن کا عہد ایک طویل مدتی وعدہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ تہران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو "صحیح سمت" میں آگے بڑھائے گی۔
ظریف نے مزید کہاکہ جب تک امریکہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرے اس وقت تک ایران کیلیے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اندر کوں اقتدار میں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے کا نتیجہ واشنگٹن کے لیے بالعکس تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد ، ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر 300 سے بڑھ کر 4000 کلوگرام ہوگئے ہیں۔
روسی ٹیلی ویژن روسیا الیوم کے مطابق بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے عائد ہونے والی پابندیاں کے اٹھانے سے قبل تہران مکمل طور پر معاہدے پر واپس آئے لیکن ایران نے بار بار کہا کہ واشنگٹن نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق ایران کا استدلال یہ ہے کہ کیونکہ امریکہ کو جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا چاہیے اسی لیے ایران نے بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یکطرفہ پابندیاں ختم کرے اور 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس آئے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ