ان خیالات کا اظہار "علی اصغر مونسان" نے اپنے انسٹاگرام پیج میں جاری ایک پوسٹ میں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا نام "مُروار" ہے جس کا مطلب ہے سرخ ولو؛ دنیا میں ولو کی 17 قسموں میں سے ایک ہے؛ یہ درخت کی پتلی اور نازک سی شاخ ہیں جو نرم کرنے کے بعد اس سے دستکاری کی مصنوعات بشمول لکڑی کی ٹوکری بناتے ہیں۔
مونسان نے کہا کہ صوبے گیلان، ہمدان اور تہران، مُروار بافی کے فن کے علمبردار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے ملایر کے بعض گاؤں بشمول قشلاق، گوراب اور داویجان میں بھی اس فن کا رواج ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاقے ملایر میں اس فن کی پیدائش کا صحیح وقت معلوم نہیں ہے؛ ملایر اور نہاوند جیسے شہروں میں "تویجہ" نامی لکڑی کی ٹوکریوں کا استعمال کئی صدیوں سے عام ہے۔
واضح رہے کہ ملایر میں مُروار بافی کا فن نصف صدی پرانا ہے جو 150 فنکاروں سے صوبے ہمدان میں مُروار بافی کا مرکز ہے جس میں بنائی گئی دستکاری مصنوعات کے 30 فیصد سے زائد کو بھی بیرون ملک میں برآمدات کی جاتی ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ