26 ستمبر، 2020، 9:37 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84055322
T T
0 Persons
ٹرمپ کو ایران کی دہمکی دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا

تہران، ارنا- امریکی انتخابات میں محض اڑھائی مہینے باقی ہیں اور امریکی صدر اب بھی ایران کو دھمکی دے کر مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ان کی بیکار کوشش کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات سے لگ بھگ 45 دن باقی ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رائے شماری میں اپنے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے ابھی بھی پیچھے ہیں لہذا وہ ان دنوں میں وہ شدت سے اپنے حریف کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چار سال قبل ہونے والے انتخابات میں ٹرمپ نے "ہلری کلنٹن" کو تھوڑے فرق سے شکست دی تھی، اور اب انہیں دوبارہ اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اور اب امریکی اندرونی صورتحال کے پیش نظر اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے فروغ کی وجہ سے ٹرمپ کے پاس معاشی صورتحال میں تبدیلی لانے کا کوئی موقع نہیں ہے لہذا وہ اور ان کی انتخابی ٹیم، خارجہ پالیسی میں کسی کامیابی کے حصول کے درپے ہیں۔

ناجائز صہیونی ریاست سے تعلقات استوار کرنے کیلئے بعض عرب رہنماؤں کی حوصلہ افزائی اور ساتھ ہی ایران سے جبرا کسی معاہدے پر اتفاق کرنے کی دہمکیاں بھی سب اس سلسلے میں ہیں۔

ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ اور صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ ایران پر معاشی، سیاسی اور سیکورٹی دباؤ ڈالنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہی ہے، ایرانی محکمہ خارجہ امریکی سازشوں کو ناکام بنانے اور امریکہ کو ایران کیخلاف اتفاق رائے تک پہنچنے سے روکنے میں کامیاب رہا ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ مایوسی کے عروج پر پہنچ کر ایران کی دہمکی دینے لگے ہیں۔

 ٹرمپ نے پہلے دور کی اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہو رہے ہیں اور ایران کیساتھ ایک نئے معاہدے پر پہنچ رہے ہیں، لیکن ایران جوہری معاہدے چھوڑنے کے بعد شدید معاشی دباؤ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے باوجود، ٹرمپ انتظامیہ ایران کو امریکہ کی طرف سے طے شدہ غیر اصولی حالات کے طے شدہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہی۔

ایران کیجانب سے اپنے کیے گئے جوہری وعدوں پر عمل کرنے اور شفاف کارکردگی کے باوجود پھر بھی ٹرمپ انتظامیہ دہمکی اور جبر سے ایران کو واشنگٹن کے مطالبات کے تسلیم کرنے کیلئے مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اور اب امریکی انتخابات میں محض اڑھائی مہینے باقی ہیں اور امریکی صدر اب بھی ایران کو دھمکی دے کر مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے 4 ستمبر کے دوران فلوریڈا میں لاطینیہ کے لئے ایک خطاب میں کہا کہ ایران اور وینزویلا امریکہ کیساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں ؛ انہوں نے کہا کہ وہ 3 نومبر کے انتخابات کے بعد تک انتظار کریں گے جس کے بعد امریکہ کیساتھ کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔

امریکی صدر نے کہا کہ ایک سال پہلے میں نے کہا تھا کہ آپ کا صرف ایک ہی انتخاب ہے یا اب مذاکرات کریں یا انتخابات کے بعد؛ انتخابات کے بعد کسی معاہدے پر دستخط بہت مشکل ہو جائے گا۔

دریں اثناء، ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے 13 ستمبر کو ایک مضمون میں کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران سے متعلق نقطہ نظر امریکی مفادات کو نقصان پہنچا تھا، انہوں نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت سے ایران کیساتھ مذاکرات کی راہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے۔

انتخابی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ ایران کیساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے میں اپنی ناکامی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسلامی جمہوریہ کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

اور ایک ایسے وقت ہے جب ایرانی حکام اور سفارتکاروں نے بارہار کہا ہے کہ اگر امریکہ جوہری معاہدے میں واپس آئے تو ایران اس سے مذاکرات کرے گا؛ لیکن ٹرمپ انتظامیہ، جس کو روایتی بین الاقوامی سفارت کاری کا تقریبا کوئی علم نہیں ہے سوچتی ہے کہ وہ غنڈہ گری سے اپنے مطالبات حاصل کر سکتی ہے۔

امریکی صدر نے خاص طور پر حالیہ مہینوں میں، نومبر کے صدارتی انتخابات سے قبل ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو تباہ کی ہر ممکن کوشش کی ہے تا کہ اسے اپنے حامیوں اور ایران مخالف لابی کو کامیابی کے طور پر پیش کریں؛ اب بھی ایران کو دہمکی دینا اور ایران کیساتھ معاہدے پر ہنگامہ آرائی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے عوام کی توجہ ان بہت سے دیگر بحرانوں سے دور ہوسکتی ہے جن کی ذمہ داری ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ "انٹونیو گوٹرش" نے حالیہ مہینوں کے دوران کہا ہے کہ "دیگر ممالک کو ایران جوہری معاہدے کے تحفظ کی ہرممکن کوشش کرنی ہوگی؛ یہ کثیر الجہتی سفارتکاری کامیابی ہے اور اس میں شریک ممالک کو اس کے تحفظ کیلئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کرنی ہوگی۔"

لہذا ٹرمپ انتظامیہ کیجانب سے اسنیپ بیک میکنزم کے نفاذ کی درخواست اور ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ کیجانب سے ایران کیخلاف پابندیوں کا از سر نو نفاذ کرنے کا اعلان ان سب کے سب دیگر ملکوں کے نقطہ نظر میں جوہری معاہدے کو بدم نام نہیں کیا ہے بلکہ ان ممالک کیجانب سے اس معاہدے پر قائم ہونے کے اظہار سے امریکہ دنیا میں مزید تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی فاسد صدارت میں امریکی انتظامیہ کی بیشتر خارجہ پالیسی ہنگامہ اور تناؤ کا باعث بنی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ سفارتکاری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر صرف اسی حد تک قائم ہے کہ اس کے مفادات کو پورا کیا جاسکے۔

ٹرمپ کے امریکہ کے لئے ایک اہم اصول یہ ہے کہ صرف ان کے مطالبات پورے کیے جائیں اور اس حوالے سے اگر اعلی سطح پر بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی بھی خلاف ورزی کی جائے تو ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ٹرمپ نے حالیہ سالوں کے دوران یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ یہاں تک کہ اہم امریکی حلیفوں کے عدم اطمینان اور احتجاج کی پرواہ نہیں کرتے اور صرف اپنے مفادات کے حصول میں ہیں۔

لیکن مریکہ کو ایران کیساتھ مذاکرات کے لئے جوہری معاہدے میں واپس آنا ہوگا اور جوہری معاہدہ یقینا مستقبل میں کسی بھی ممکنہ معاہدے کی بنیاد ہوگا؛ لہذا اس وقت ٹرمپ صرف ایران کو دھمکی دے کر خود کو بدنام کررہے ہیں۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .