اس مضمون میں آیا ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ غزہ اور اس کے عوام کو بس ٹیلی ویژن اسکرین پر نشر ہونے والی تصاویر سے پہچانتے ہیں اور امریکی وزارت خارجہ اور وزارت جنگ کے ماہرین سے پوچھے بغیر اس بارے میں رائے قائم کرتے ہیں جس کے نتیجے کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
مضمون نگار بتصئل لاوی نے لکھا ہے کہ ٹرمپ وہی شخص ہے جس نے کورونا سے بچنے کے لیے تیزاب پینے کی تجویز دی تھی اور 2020 کے انتخابات میں اپنی شکست نہ مانتے ہوئے بلوا کھڑا کر دیا تھا لیکن انتہاپسند صیہونیوں بالخصوص نتن یاہو ان کے موجودہ رویے کو اپنے لیے کامیابی قرار دیکر بلاوجہ خوش ہو رہے ہیں۔
مضمون نگار کے مطابق، ٹرمپ بارہا اپنے منصوبوں کو اچانک تبدیل کرنے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مضمون میں درج ہے کہ نتن یاہو کو بھی جان لینا چاہیے کہ جس طرح عراق اور افغانستان پر امریکی کلچر اور مغربی اقدار مسلط کرنا شکست سے دوچار ہوا اسی طرح غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی کوچ کرانا بھی ایک شکست خوردہ منصوبہ ہے۔
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ غزہ کے عوام کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ 6 روزہ جنگ میں بھی پیش کیا جا چکا تھا جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
اس مضمون میں آیا ہے کہ ٹرمپ کی دھونس دھمکیاں بھی بس دکھاوے کے لیے ہیں اور اس کا مقصد دنیا کی توجہ اپنی جانب موڑنا ہے اور نتن یاہو ٹرمپ کی ان نمائشی پالیسیوں پر جوا کھیل کر غزہ کے دلدل میں اسرائیل کو ڈبو دیں گے۔
آپ کا تبصرہ