اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے کہا ہے کہ میں اسرائیلیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہفتے کی شام کو احتجاجی مظاہرہ کرکے ان کے بقول اسرائیل کو اپنے صحیح راستے پر واپس لایا جائے۔
دوسری جانب غزہ میں قید صیہونیوں کے گھروالوں نے بھی کہا ہے کہ ہفتے کی شام تل ابیب اور چند دیگر شہروں میں قیدیوں کی واپسی کے لیے مظاہرے کیے جائیں گے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 74 فیصد صیہونی آبادکار قیدیوں کے تبادلے کے خواہاں ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کو غزہ سے تمام قیدیوں کی واپسی کے لیے ایک جامع معاہدہ کرنا چاہیے حتی اگر اس معاہدے کی قیمت جنگ بندی اور غزہ میں جارحیت کا خاتمہ ہو۔
ادھر فلسطینی استقامتی محاذ کے ایک سینیئر رکن نے بتایا ہے کہ دو مرحلوں پر مبنی ایک معاہدے کے حصول پر بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات میں پیشرفت دکھائی دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صیہونی حکومت گھنی آبادیوں سے نکلنے کے لیے تیار ہے۔
معاہدے کے مطابق، جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دن پر مشتمل ہوگا۔ اس مرحلے میں صیہونی خواتین، بچے، سن رسیدہ افراد اور خاتون فوجیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے بدلے فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو رہا کیا جائے گا جنہیں صیہونی عدالتوں نے طویل المدت قید یا پھر عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
حماس کے سینیئر رہنما نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں صیہونی فوج مکمل طور پر غزہ پٹی سے نکل جائے گی اور جنگ بندی نافذ ہوگی۔ اس مرحلے میں مرد صیہونی فوجی رہا کيے جائیں گے اور اس کے بدلے فلسطینیوں کی مزید بڑی تعداد رہا ہوگی۔
حماس کے ایک اور سینیئر رہنما نے اس سے قبل العربی الجدید کو بتایا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کے اس معاہدے میں زیادہ تر اختلافی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک مصری عہدے دار نے بھی دعوی کیا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم کا موقف ہر دور سے زیادہ نرم ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتن یاہو نے زیادہ تر معاملات پر رضامندی ظاہر کی ہے جس پر اس سے قبل انہیں اختلاف تھا، لہذا غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ان کے بقول بہت جلد ہوگا۔
آپ کا تبصرہ