صدر مملکت نے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا سے گفتگو کرتے ہوئے جواہانسبرگ کے اس اقدام کو شجاعانہ قرار دیا اور کہا کہ جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جس نے برسوں تک نسل پرستی اور نسل کشی کا خود سامنا کیا ہے اور اب ان کے اس صیہونی مخالف اقدام کی نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا کی تمام حریت پسند ملتیں اور آزادی پسند انسان تحسین کر رہے ہیں۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی یقینا اس کیس کے راستے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے لہذا عالمی برادری اورتمام قوموں کو ایسی صورت میں توقع یہ ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے مجرم صیہونی حکومت کے خلاف فیصلہ سنائے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ نے یہ اقدام ایسے دور میں کیا ہے کہ جب عالمی ادارے بے عملی میں مبتلا ہیں۔ صدر رئیسی نے اپنے ہم منصب سے کہا کہ آپ کا نام نیلسن منڈیلا کے ساتھ دنیا کے دیگر نسل پرست مخالف اور انصاف پسند شخصیات کی فہرست میں درج کیا جائے گا۔
صدر جمہوریہ نے اس موقع پر ایران اور جنوبی افریقہ کے مابین سیاست، معیشت اور سائنسی میدان میں تعلقات میں فروغ پر بھی زور دیا۔
جنوبی افریقہ کے صدر نے کہا کہ یہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جیسے موثر اور امن پسند ممالک فلسطینی عوام کی حمایت اور ان کے حقوق کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ جنوبی افریقہ گنے چنے اسرائیل حامی ممالک کی مخالفت سے مرعوب ہونے والا نہیں ہے۔ رامافوسا نے کہا کہ اسرائیل حامی ممالک نے عالمی معاملات میں ہمیشہ مکارانہ اور منافقانہ رویہ اپنایا ہے لیکن غزہ میں دل دہلا دینے والے جرائم نے ان کے حقیقی چہرے پر سے پردہ ہٹا دیا اور اب دنیا بھر کے عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ مغربی ممالک کو انسانی جانوں کی ہرگز پرواہ نہیں ہے۔
سیرل رامافوسا نے اس ٹیلی فونی گفتگو کے دوران کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران مشکل دور میں ایک حقیقی دوست بن کر جنوبی افریقہ کے ساتھ کھڑا رہا اور جنوبی افریقہ کے عوام اور اس ملک کی حکومت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ