ارنا رپورٹ کے مطابق، "امیر سعید ایروانی" نے پیر کے روز کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کی تیسری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی کے ممالک کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک علاقے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے دیگر معاہدوں پر مبنی ذمہ داریوں کو نافذ کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ میں اعلی ایرانی سفارتکار نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے جوہری مسائل سے متعلق غیر پیشہ ورانہ اور جھوٹے مقدمات پیش کرنے سے نہ صرف یہ دعوے کرنے والوں کو مدد ملے گی بلکہ یہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے خطے کے لیے اہم خطرے سے توجہ ہٹا دے گا جو صیہونی ریاست ہے۔
ایراوانی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خیالات اور نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی بین الاقوامی تنظیموں میں تہران کی رکنیت کا حوالہ دیتے ہوئے، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مکمل اور حتمی تباہی کے حوالے سے ایران کی مسلسل پالیسی بشمول 1974 میں مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں سے پاک ایک خطے بنانے کی تجویز پر زور دیا۔
اقوام متحدہ میں اعلی ایرانی سفارتکار نے کہا کہ صہیونی ریاست کی امریکہ کی حمایت سے کانفرنس میں عدم شرکت مشرق وسطی میں ایسے خطے کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت حال میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کا پہلا راستہ اسرائیل کا این پی ٹی میں غیر جوہری رکن کی حیثیت سے الحاق اور اس کی تمام ایٹمی سرگرمیوں کے ایجنسی کے معائنے کو قبول کرنا ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ان دونوں پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ اپنے غیر تعمیری موقف کو ترک کر دیں۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے 2018 میں جوہری معاہدے سے امریکی انخلاء اور غیر قانونی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ امریکی حکومت کی جوہری معاہدے میں واپسی پر ہچکچاہٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایران نے اپنی حفاظتی ذمہ داریوں کی پاسداری کی ہے اورتہران اور ویانا کے درمیان باقی ماندہ مسائل کو حل کرنے کے لیے وفود کا تبادلہ جاری ہے۔
ایروانی نے کچھ مقررین جنہوں نے جوہری معاہدے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں اور دیگر مسائل سے متعلق مسائل کو اٹھایا، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان غیر پیشہ ورانہ اور جھوٹے مقدمات کو پیش کرنے سے نہ صرف یہ دعوے کرنے والوں کو مدد ملے گی بلکہ یہ صہیونی کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے خطے کو درپیش اہم خطرے سے بھی توجہ ہٹا دے گی۔
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل نمائندے نے ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے والے مغربی ایٹمی ممالک کے بارے میں بھی کہا کہ ان ممالک کو کانفرنس کے مبصر رکن کی حیثیت سے جو موقع دیا گیا ہے اس کا غلط استعمال نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان سے توقع ہے کہ وہ خطے کے ممالک کی اہم توقعات کو پورا کریں جو کہ منفی سیکورٹی ضمانتوں کا تعاقب کرنا ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ