کیتھولیک چرچ کو کینیڈین دیسیوں کیخلاف نسل کشی کی ذمہ داری کا تسلیم کرنا ہوگا: پوپ فرانسس

تہران- ارنا- کیھتولیک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بدھ کے روز کو اپنے دورہ کینیڈا کی واپسی کے بعد کیتھولیک چرچ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اداروں کی ذمہ داری قبول کریں جنہوں نے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ہے اور دیسی ثقافت کو صاف کرنے کے لیے کام کیا ہے۔

 ارنا رپورٹ کے مطابق، کیتھولک مسیحیوں  کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے خبردار کیا ہے کہ کینیڈا میں اسکول کے بچوں کے ساتھ دہائیوں سے جاری بدسلوکی نسل کشی کے مترادف ہے۔

 رواں ہفتے کینیڈا کے اپنے 6 روزہ دورے کے دوران 85 سالہ پوپ نے فرسٹ نیشنز، میٹیس اور انوئٹ کے لوگوں کو تاریخی معافی پیش کی، جو برسوں سے دنیا کے ایک ارب 30 کروڑ کیتھولک عوام کے سربراہ کی جانب سے اس طرح کے اعتراف کا انتظار کر رہے تھے۔

پوپ فرانسس نے جہاز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈا میں بچوں کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری بدسلوکی اور جنسی استحصال کو بیان کرنے کے لیے لفظ نسل کشی استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ لفظ کینیڈا میں اس لیے نہیں کہا کیونکہ یہ لفظ اس وقت میرے ذہن میں نہیں آیا تھا، اس لفظ کو میں نے خاص طو پر نسل کشی کو بیان کرنے کے لیے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اور میں نے اس عمل کے لیے معافی مانگی جو کہ اصل میں نسل کشی ہے۔

اگرچہ پوپ فرانسس کی بے مثال معافی کا پورے کینیڈا میں خیر مقدم کیا گیا، مغربی البرٹا سے لے کر کیوبیک اور شمال کے دور دراز علاقوں تک ان کے بیان کو سراہا گیا، تاہم کچھ متاثرین نے کہا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

پوپ فرانسس نے اپنے دورے کے دوران جمعہ کے روز کہا کہ کیتھولک چرچ کے زیر انتظام پورے کینیڈا میں 139 رہائشی اسکولوں میں کیے گئے گناہ، بدی کے لیے معافی مانگی، جہاں 1800 کی دہائی کے آخر سے 1990 کی دہائی تک تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار بچوں کو بھیجا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس معاملے پر مجھے کتنا افسوس ہے اور اس برائی کے لیے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کو اسکولوں میں جسمانی اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ہزاروں بچوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بیماری، غذائی قلت یا نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .