یورپی ممالک نے امریکہ کی جوہری معاہدے کیخلاف ورزی کو محض دیکھ کرکے کچھ نہیں کیا: نائب ایرانی صدر

تہران، ارنا- نائب ایرانی صدر برائے قانونی امور نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران نے بدستور مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے اور اس نے کبھی بھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ جوہری معاہدے کے عدم نفاذ کا ذمہ دار ہے اور یورپی فریقین نے امریکہ کیجانب سے جوہری معاہدے کیخلاف ورزی کو محض دیکھ کرکے کچھ نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق، "محمد دہقان" نے آج بروز پیر کو ایران میں تعینات جرمن سفیر "ہانس اودو موتسل" سے ایک ملاقات میں مختلف مسائل بشمول جوہری مذاکرات کے مستقبل کیلئے باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے گزشتہ 150سالوں کے دوران، ایران اور جرمنی کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکومت کا وژن مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا اور مضبوط بنانا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جرمنی کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط رہیں گے۔

دہقان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جرمنی ایک طاقتور یورپی ملک کے طور پر اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی یکطرفہ طرز عمل سے متاثر نہ ہو اور بین الاقوامی میدان میں موثر کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ  ایران نے بدستور مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے اور اس نے کبھی بھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا ہے اور ماضی میں ہم نے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

نائب ایرانی صدر نے کہا کہ آج، ہم نئی جرمن حکومت کے قیام سمیت یورپی فریقین کی مضبوط موجودگی سے ایک متوازن معاہدے تک پہنچنے کی امید کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے کے عدم نفاذ کا ذمہ دار امریکہ ہے، اور ہمیں توقع تھی کہ یورپ اور خاص طور پر جرمنی اس حوالے سے فعال کردار ادا کرے گا۔

دہقان نے کہا کہ جوہری معاہدہ ایک بین الاقوامی دستاویز تھی جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کیا تھا تا ہم یورپی ممالک نے  امریکہ کی جوہری معاہدے کیخلاف ورزی کو  محض دیکھ کر کے کچھ نہیں کیا جو تاریخ کی یادداشت سے کبھی ہٹ نہیں جائے گی۔

نائب  ایرانی صدر برائے قانونی امور نے خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے میں امریکہ اور یورپ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صدام نے امریکہ اور یورپ کی حمایت سے ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی۔

انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک بالخصوص جرمنی نے صدام کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے تھے۔ اس جنگ میں شریک ہمارے اہلکاروں نے برسوں سے ان ہتھیاروں کے اثرات سے دوچار ہیں۔ جرمن حکومت اس جرم میں شریک ہے۔ اگر آپ ابھی عراق اور ایران میں حلبچہ اور سردشت کا سفر کریں تو آپ کو ایسے لوگ نظر آئیں گے جو ابھی تک کیمیائی بمباری کے اثرات سے متاثر ہیں۔

دہقان نے کہا کہ ایران کے پاس مسلط کردہ جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے اور وہ ایسے ہتھیاروں پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی رکھے گا۔ یہ ایران کے خلاف ایک بے بنیاد الزام ہے کہ ہم جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم کبھی ایٹمی ہتھیار بنانے کے خواہاں ہیں ہیں۔

انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے یورپ کے دوہرے معیار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یورپ، صیہونی ریاست کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں حساس نہیں ہے جو خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

 دہقان نے کہا کہ یورپ اور امریکہ موجودہ حالات اور طالبان کے برسر کار آنے میں اپنے کردار کی تردد نہیں کر سکتے اور اب نعرے لگانے کے بجائے انہیں افغان عوام اور دوسرے ممالک میں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .