تہران (ارنا) یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سیکرٹری نے ایک بیان میں تاکید کی کہ فلسطین کی حمایت جاری رہے گی اور لبنان میں جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں کہ فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔

یاسر الحوری نے ارنا کے انٹرنیشنل گروپ کے نامہ نگار کیساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ حق اور باطل کے معرکے میں غزہ پٹی میں براہ راست جنگ اور دیگر محاذوں کی حمایت جاری رہے گی اور فلسطینی مقاومت کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کی امید ہے کہ اگر لبنان میں جنگ بندی کامیاب رہی تو غزہ میں بھی جنگ بندی ہوجائیگی اور اگر یہ توقع پوری نہ ہوئی تو بھی اسلامی امہ اور مقاومتی محاذ فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

الحوری نے واضح کیا کہ مزاحمتی محاذ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بلواسطہ اور بلاواسطہ ملٹری اور سویلین سمیت تمام ممکنہ ذرائع سے فلسطین کی حمایت جاری رکھے گا۔

انکا کہنا تھا کہ مزاحمتی محاذ ایک واضح منصوبے کی بنیاد پر دشمن سے نبرد آزما ہے اور زمینی و سیاسی حالات کے پیش نظر لڑائی اور حمایت  کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے۔  

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حزب اللہ کی کامیابی میں کوئی شک نہیں، مزید کہا کہ یہ فتح جیسا کہ لبنانیوں کے موقف اور ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے حزب اللہ کی بے مثال استقامت اور مزاحمت کا نتیجہ ہے جس میں صیہونی جکومت کی ساتھ امریکہ بھی اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے۔

یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سیکرٹری نے کہا کہ دشمنوں کو جان لینا چاہیے کہ یمن، عراق، لبنان، ایران، شام اور فلسطین میں مزاحمتی محاذ کے درمیان تعاون اور یکجہتی بے مثال ہے اور شہداء کے قیمتی نذرانے دینے والی مزاحمت کو ختم کرنا ناممکن ہے۔

الحوری نے واضح کیا کہ اس مرحلے پر حزب اللہ کو فلسطین کے راستے میں لگنے والے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے ایک موقع کی ضرورت ہے اور اسے اپنے عظیم کمانڈروں کا دکھ بھی برداشت کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے طوفان الاقصی آپریشن کا حصہ ہونے نے صہیونی دشمن کے مشرق وسطیٰ کو کمزور کرنے کے خوابوں کو خاک میں ملا دیا اور مظلوموں اور محصورین کی 400 دن سے زائد کی حمایت اور عالم اسلام کے سب سے مقدس موضوع: فلسطینی قوم کا دفاع،  لبنانی مزاحمت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

الحوری نے کہا کہ مختصراً یہ کہنا چاہیے کہ اس کامیابی کے تسلسل میں ہم غزہ پٹی میں مزاحمت کی فتح کا مشاہدہ کررہے ہیں، یہ فتح امت اسلامیہ  کے آزاد لوگوں اور جہادی و مزاحمتی گروہوں کے لیے نئی مساوات کا آغاز ہے اور مزاحمت نے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ عرب اور اسلامی ممالک کی بڑی دعویدار فوجوں نے بھی حاصل نہیں کیں۔۔

یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سیکرٹری نے کہا کہ پیچر دھماکوں میں سیکڑوں مزاحمتی فورسز اور عام شہریوں کی شہادت اور زخمی ہونا، سیاسی رہنماوں، فوجی عہدیداروں اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کا قتل اور یہانتکہ امت اسلامی کے عظیم شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت بھی اس قوم اور مزاحمت کو گھٹنوں کے بل نہ لا سکی۔

الحوری نے مزید کہا کہ ان تمام مصیبتوں کے باوجود لبنان کی حزب اللہ امت اسلامیہ کے دفاع میں ایک مضبوط پہاڑ کی طرح کھڑی رہی اور مزاحمت کو تباہ کرنے اور بیروت پر قبضہ کرنے اور پھر شام پر حملہ کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے پہلے گھنٹوں میں ہمیں حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم اور لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اس حساس صورتحال میں سید حسن نصراللہ کی خالی جگہ کو پر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

الحوری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لبنانی حکام اور مزاحمت کار ہر محاذ پر صیہونی دشمن اور اس کے حامیوں کے ساتھ اسٹریٹجک لڑائیوں کے اس دور میں یہ عظیم فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے بھاری قیمت ادا کر کے ایک عظیم فتح حاصل کرلی ہے اور اس فتح کو ثابت کرنے کی سب سے چھوٹی وجہ بنیامین نیتن یاہو کی لبنان پر حملہ کرنے میں اپنے مقاصد میں ناکامی ہے۔

یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سیکرٹری نے کہا کہ جو لوگ حزب اللہ کی کارروائیوں یا تاثیر پر شک کرتے تھے وہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی شہادت کہ جنہوں نے قدس کے راستے میں  اپنی جان قربان کر دی، لبنانی مزاحمت کے اہداف اور تاثیر کے بارے میں مطمئن ہوگئے ہیں۔

الحوری نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت سے پہلے اور بعد میں مزاحمتی قوتوں نے فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑنے کی تمام فتنہ انگیز پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور مقبوضہ علاقوں کو اندر تک ہزاروں میزائلوں سے نشانہ بنایا اور امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام کو شکست دی 15ویں بار، مزاحمتی آپریشن کے بارے میں شکوک و شبہات کو ناکام بنا دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام مزاحمتی گروہوں منجملہ حماس نے اسلامی مزاحمت اور لبنانی قوم کو اس عظیم فتح اور کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور اتحاد پر تاکید کی۔

الحوری نے کہا کہ جس طرح مزاحمتی محور کو ٹکرے کرنا بے معنی ہے اسی طرح تمام تر قربانیوں کے بعد مزاحمت پر شک کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے اپنے تمام وعدوں کو پورا کیا، جب کہ حزب اللہ کی کارروائیوں کی نیت اور تاثیر پر شک کرنے والوں نے فلسطینی قوم کے لیے خوراک کی امداد بھیجنے سے بھی انکار کر دیا۔

الحوری نے کہا کہ حزب اللہ کی فتح کا ایک اور ثبوت اس جنگ بندی پر صیہونی حکومت کی کابینہ کے اندر شدید اختلاف اور فلسطین میں رہنے والے زیادہ تر صیہونیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں ناکام ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شائع شدہ رپورٹوں اور تجزیوں کی بنیاد پر بہت سے صیہونیوں کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ لبنان پر حملے سے پہلے طے شدہ اہداف سے بہت دور ہے۔