اس اجلاس کے اختتامی بیان میں جو روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور دیگر پارلیمانوں کے سربراہوں کی موجودگی میں منعقد ہوا ، کہا گیا ہے: ہم یکطرفہ اور جبری اقدامات کے خلاف ہیں کہ جو اقوام متحدہ کے منشور کی بھی خلاف ورزی ہے اور اس سے معاشی ترقی، تجارت، انرجی صحت اور فوڈ سیکوریٹی جیسے مختلف شعبوں میں ترقی پر اثر پڑتا ہے اور یہ اثر ترقی پزیر ملکوں پر زيادہ پڑتا ہے ۔
بیان میں، برکس کے سینئر پارلیمانی عہدیداروں نے کثیرالجہتی، شفاف، منصفانہ، جامع، ، غیر امتیازی اور قواعد پر مبنی ایسے تجارتی میکانزم کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کی بنیاد ادارہ عالمی تجارت اور ترقی پزیر ممالک کے مفادات پر توجہ ہو۔
سینٹ پیٹرزبرگ سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں، برکس کے رکن ممالک کے اعلیٰ حکام نے کثیرالجہتی اور بین الاقوامی قانون کے احترام پر اپنی پابندی کا بھی اعلان کیا جو اقوام متحدہ کے منشور میں بھی مذکور ہيں۔
انہوں نے بین الاقوامی نظام میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کے تحت خودمختار ممالک کو بین الاقوامی امن و سلامتی، پائیدار ترقی، جمہوریت کی حمایت، انسانی حقوق اور سب کے لیے بنیادی آزادی کو فروغ دینے میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
بیان میں اسی طرح کہا گیا ہے: دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی مذمت کی جانی ہے چاہے اس کے ارتکاب کی وجوہات کچھ بھی ہوں، ہم دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس چاہتے ہیں اور ہم دہشت گردی سے نمٹنے میں دوہرے معیار کو مسترد کرتے ہیں۔
برکس کے رکن ملکوں کے اسپیکروں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہشت گردی کو کسی مذہب، قومیت، تہذیب یا نسلی گروہ سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے: وہ تمام لوگ جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں ان کا احتساب کیا جانا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق انہيں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
برکس کی پارلیمانی کونسل کا دسواں اجلاس سینٹ پیٹرزبرگ میں جمعہ 22 جولائی کو اختتام پزیر ہوا۔
آپ کا تبصرہ