رپورٹ کے مطابق، ویانا مذاکرات کا آٹھوان دور سیاسی فیصلوں کرنے کے مقصد سے روکے گئے ہیں؛ بین الاقوامی مبصرین کا عقیدہ ہے کہ یورپی اور امریکی ممالک کی جانب سے متعدد تخریب کاری اور مذاکرات میں سست پیشرفت کے دعووں اور ڈیڈ لائن مقرر کرنے کے باوجود وہ ویانا مذاکرات کے مستقبل سے متعلق پہلے سے زیادہ پُر امید ہیں۔
اس سلسلے میں جوہری معاہدے کے کوارڈینیٹر "انریکہ مورا" نے حالیہ دنوں میں ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اب سیاسی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مشاورت اور ہدایات حاصل کرنے کے بعد، وفود اگلے ہفتے اپنے دارالحکومتوں سے ویانا واپس جائیں گے تاکہ آٹھویں دور کا تعاقب کریں، جو اب تک کا طویل ترین دور تھا۔
اسی وقت، تین یورپی ممالک کے مذاکرات کاروں نے ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ ویانا مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ رہے ہیں اور سیاسی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
ایران اور گروپ 1+4 کے درمیان مذاکرات میں شریک تین یورپی ممالک کی طرف سے اسی طرح کے مشترکہ بیانات کا جاری ہونا یقیناً کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے بہت سے ایسے دکھاوے کے بیانات جاری کیے ہیں، لیکن ان بیانات کی تصدیق کا معیار کیا ہو سکتا ہے؟
سخت سیاسی فیصلوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کے لیے یورپ کے عملی اقدامات، خاص طور پر واشنگٹن کیجانب سے پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایران کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے اور موثر اور مسلسل نفاذ کی ضمانت فراہم کریں گے۔
دریں اثنا، فرانس اور روس کے صدور کی چند روز قبل جوہری معاہدے پر توجہ مرکوز کرنے سے ایرانی صدر سے ٹیلی فونک رابطوں کے بعد گزشتہ رات فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ اس ٹیلی فونک رابطے کو اس سے پہلے کچھ فرانسیسی میڈیا بشمول لوفیگارو نے پیش گوئی کی تھی اور مغربیوں کیجانب سے اس راستے میں روڑے اٹکانے کے باجود ایک بار پھر ویانا مذاکرات کے مستقبل پر نظریں مثبت ہوئیں۔
الیزہ محل نے اس حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا کہ فرانسیسی صدر نے ہفتے کے روز اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں ایرانی جوہری مسئلے پر تیزی سے پیش رفت کی اہمیت پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق، میکرون نے ایران کے جوہری مذاکرات میں تیزی لانے کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا جس کو انہوں نے "مطلوبہ پیش رفت" قرار دیتے ہوئے سفارتی حل کے استعمال کو "ممکن اور ضروری" قرار دیا۔
فرانس 24 کی ویب سائٹ بھی الیزہ کے بیان کی عکاسی کی جو گزشتہ رات ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد شائع ہوا تھا اور فرانسیسی صدر کے مطابق کہا کہ کسی بھی معاہدے کے لیے تمام فریقین کی جانب سے واضح اور کافی وعدوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر فرانس اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
فرانس پریس نے بھی اس بیان کی عکاسی کی جس میں میکرون کے حوالے سے تعمیری نقطہ نظر اور ایران کے وعدوں پر مکمل عمل درآمد کی طرف واپسی کا اظہار کیا گیا۔
اس نیوز ایجنسی نے ایرانی صدر کے بیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے ویانا مذاکرات میں ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی آمادگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سلسلے میں دوسری طرف سے کسی بھی کوشش میں پابندیوں کا خاتمہ، تصدیق اور ایک درست ضمانت شامل ہونا ہوگا۔
دوسری طرف اگرچہ ویانا مذاکرات میں شامل فرانسیسی فریقوں نے حالیہ برسوں میں اپنے وعدوں کو بار بار سبوتاژ کیا ہے اور اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ ایک غیر ذمہ دارانہ تعریف کا جواب دیا ہے، لیکن انہوں نے گزشتہ ہفتے جمعہ کو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔
فرانس 24 نے اپنی رپورٹ میں مغربی فریقین کی ایران سے جوہری مذاکرات کے ریکارڈ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے نئے دور کا مقصد 2018 میں جوہری معاہدے سے علیحدہ شدہ اور ایران کیخلاف پابندیاں عائد کرنے والا امریکہ کو اس معاہدے میں واپس لانا ہے و نیز ایران کو اپنے جوہری وعدوں پر پورا اترنا ہے۔
تاہم اگر یورپ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی وعدہ خلافی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمارے ملک کے لیے مطلوبہ معاہدے کے حصول میں کچھ ایسی حساسیتیں بھی شامل ہیں کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے فریق تہران کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کون سے اہم اقدامات اور یقینی ضمانتیں فراہم کریں گے۔
مثال کے طور پر، خاتون برطانوی وزیر خارجہ "لِزا ٹیریس" کے حالیہ فضول ریمارکس، جنہوں نے مذاکرات کی پیش رفت سے متصادم، یہ دعوی کیا کہ "مذاکرات کا عمل خطرناک تعطل کے قریب پہنچ رہا ہے"، مذاکرات کے خلاف منفی ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے؛ دوسرے لفظوں میں، مغربی فریق اپنے ہاتھوں سے معاہدے تک پہنچنے کے لیے پیچھے ہٹیں گے اور اپنے قدموں سے آگے بڑھیں گے۔
یہ الزامات کہ مذاکراتی عمل سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے وہ بھی ایک ایسی سازش کا موضوع ہے جو مغربی ممالک کی طرف سے بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے کہ وہ تہران پر اپنے مطالبات مسلط کرنے اور اسلامی جمہوریہ کی توقعات کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ لیکن وہ ہر بار ناکام ہوتے ہیں اور تہران بھی پابندیاں ہٹانے، ضمانتیں فراہم کرنے اور اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے قانونی حق سے متعلق اپنے مضبوط موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کل اپنے فرانسیسی ہم منصب کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں ویانا مذاکرات کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے مضبوط موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ مذاکراتی عمل میں، اسلامی جمہوریہ نے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی مرضی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور اس سلسلے میں دوسری طرف سے کسی بھی کوشش میں پابندیاں اٹھانا، تصدیق اور ایک درست ضمانت شامل ہونا ہوگا۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ مغربی ممالک جن کے ایرانی قوم کے ساتھ رویے کے ریکارڈ میں وعدہ خلافی کا ایک بہت بڑا کیس ہے، وہ اس بار ویانا میں مذاکرات کی میز پر کیا فیصلے کریں گے؟
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ