رپورٹ کے مطابق، "ولف دیتریش ہایم" نے پیر کے روز، صوبہ خراسان رضوی چیمبر آف کامرس کے بین الاقوامی اسٹریٹجک نگرانی کے انچارج اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن سے ایک ملاقات میں افغانستان میں آسٹریا کے شہریوں کی مدد کرنے میں ایران کے کردار کو سراہتے ہوئے مزید کہا کہ ایران 40 سال سے زائد عرصے سے افغان تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے اور اس نے اس شعبے میں ان کی اچھی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آسٹرین حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں ایران کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کورونا وبا کے پھیلاؤ کے موقع پر ایران میں ایک لاکھ ویکسین کی خوراکیں درآمد کرے۔
آسٹرین سفیر نے ایران اور آسٹریا کے درمیان اقتصادی تعلقات میں بہتری کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ میرا مشہد کا پہلا دورہ ہے اور مجھے مقدس مقامات اور سیاحتی مراکز کا دورہ کرنے اور اس شہر میں اقتصادی کارکنوں سے بات چیت کرنے کا لطف آتا ہے۔ مشہد ایک ایسا شہر ہے جس میں بہت سے لوگ موجود ہیں۔ اور میں اس شہر اور صوبہ خراسان رضوی کی صلاحیتوں خاص طور پر اقتصادی شعبوں سے واقف ہونے میں بہت دلچسبی رکھتا ہوں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ویانا میں ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جاری مذاکرات اچھے طریقے سے آگے بڑھیں گے اور دونوں فریقین کے حق میں ایک سازگار نتیجہ حاصل کریں گے، تاکہ ایران اور آسٹریا کے درمیان مختلف شعبوں بالخصوص اقتصادی تجارتی میدان میں تعلقات کی ترقی کا مشاہدہ کیا جاسکے۔
آسٹرین سفیر نے اس ملاقات میں پیداوار، صنعت اور زراعت کے شعبوں میں خراسان رضوی کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کیساتھ تجارت میں اس خطے کی اسٹریٹجک اور ممتاز پوزیشن پر گفتگو کی۔
دراین اثنا خراسان رضوی چیمبر آف کامرس کے بین الاقوامی اسٹریٹجک نگرانی کے انچارج اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن "محمد رضا توکلی زادہ" نے ایران اور آسٹریا کی مشترکہ صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریا چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے ساتھ ساتھ زراعت کے میدان میں بھی مشینری تیار کرنے والے ممالک میں سے ایک رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تبادلہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے اور شاید مستقبل میں ہونے والی بات چیت میں اس مسئلے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے "افغانستان میں حالیہ تبدیلیاں اور پڑوسی ممالک پر ان کے اثرات" سے متعلق آسٹرین سفیر کے سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان، گزشتہ چالیس سالوں میں مختلف گروہوں کے داخلے اور اخراج اور اس ملک میں موجود مختلف طاقتوں کے امتزاج سے یہ ایک طویل اور تباہ کن جنگ کا شکار ہوگیا ہے۔
توکلی زادہ نے پڑوسی ملک افغانستان میں معاشی بحران کی شدت اور افغان معاشرے کے مختلف طبقات پر اس کے اثرات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاروں کا اس ملک سے انخلاء جن پر افغانستان کی معیشت کا پہیہ منحصر تھا اور افغانستان کیلئے کچھ بین الاقوامی امداد کی بندش نے اس بحران میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی اور انسانی اداروں کی مدد اور توجہ کی ضرورت ہے۔
ملاقات کے اختتام پر فریقین نے دونوں ممالک کے سرگرم اقتصادی کارکنوں کی ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے واقفیت اور تعاون کی ترقی پر زور دیا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ