ایران کی ہخامنشی سلطنت کے حکمرانوں کا عظیم الشان دارالسلطنت تخت جمشید جو صوبائی دارالحکومت شیراز سے چالیس میل شمال مشرق میں واقع ہے.
شاہی محلات کے کھنڈر اب بھی قدیم فن تعمیر کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں. یہاں سے متعدد قدیم پتھروں کے مجسمے، زیورات، نوادرات، برتن و غیرہ کھدائی کے دوران میں برآمد ہوئے ہیں.
تخت جمشید 25 صدی سے پہلے ایرانی بادشاہ داریوش کبیر کے دور میں میترا نامی پہاڑ کے مغربی کنارے میں تعمیر کیا گیا جس کی ساخت میں بڑی تعداد میں آرٹسٹ، فنکاروں، دستکاری کرنے والے، کارکنوں، مردوں اور خواتین نے شرکت کرکے تنخواہ حاصل کرنے کے علاوہ، مزدور انشورنس کے فوائد بھی استعمال کئے ہیں.
120 سال عرصے گزر جانے کے بعد تخت جمشید کی ساخت مکمل ہوگیا.
تخت جمشید کے محلوں کا کل رقبہ 125 ہزار میٹرکیوبک ہے جو رسمی اور سرکاری محل، خصوصی چھوٹے محل، بادشاہ کا خزانہ، حفاظتی قلعہ، پلیٹ فارم کے داخلہ سیڑھی اور خشایار شاہ کے دروازے کے مختلف حصوں پر شامل ہے.
ختشایارشا کے شاندار محلات کے جو کھنڈرات تخت جمشید میں ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محلوں میں وسیع دربار ہال تھ جن میں عظیم اور بلند ستون استعمال کیے جاتے تھے اور ہال کے سامنے بارہ دریاں ہوتی تھیں جن میں چوکور ستون ہوتے تھے۔ محلوں تک پہنچنے کے لیے زینوں کے دوہرے سلسلے ہوتے تھے۔
آپادانا نامی محل تخت جمشید کے سب سے پرانی محل ہے جو داریوش کبیر کے حکم کے تحت بنایا گیا ہے جس سے نوروز کی تقریبات اور غیرملکی مہمانوں کے استقبال کے لئے استعمال کیا گیا ہے.
داریوش کبیر بادشاہ نے آپادانا محل کے علاوہ تچر یا تچرا محل کی ساخت کے حکم کو دے دیا جسے ان کو خصوصی محل تھا.
سکندر اعظم نے 330 سال سے پہلے دارا سوم کو شکست دے کر اس شہر کو آگ لگا دی اور ویران کر دیا۔
عالمی ثقافتی ادارہ یونسکو نے 1979 میں تخت جمشید کو عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا ہے ۔
9393*274**
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
تہران، 4 ستمبر، ارنا - ایران کے جنوبی صوبے فارس میں تخت جمشید کے مقام پر ہخامنشی سلطنت کے تاریخی کھنڈرات اس دور کی تہذیب اور تاریخ کے عکاس ہیں.