پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے اختلافات کے حل کے لیے ایسے حالات میں چین کے تعاون کی امید ہے جب پاکستان کے اندر دہشت گردی کا مسئلہ، خاص طور پر چینی شہریوں کے خلاف مسلسل حملوں اور دونوں ممالک کے مشترکہ منصوبوں، میکرو اکنامک تعلقات کے مستقبل میں پیش رفت سمیت پاک چین مشترکہ اقتصادی راہداری (CPEC) CPEC) خطرے میں ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت، جس نے مارچ کے وسط میں عہدہ سنبھالا تھا، چین کے ساتھ مشترکہ اقتصادی راہداری کو بحال کرنے کے لیے پرامید ہے، یہ تقریباً 62 بلین ڈالر کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو کہ بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے مگر پاکستان کے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔
پاکستان کے ترقی اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے حال ہی میں اپنے بیجنگ کے دورے کے دوران چینی حکام سے ملاقات کی تاکہ شہباز شریف کے آئندہ دورہ چین کی تیاری کی جا سکے جس کا مقصد زیر التوا منصوبوں کو فعال کرنا اور "CPEC" منصوبے کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد کو چین کی جانب سے افغانستان کو پاک چین مشترکہ اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تاہم پاکستانل چاہتا ہے کہ بیجنگ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کابل کو افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کارروائی پر راضی کرے۔
انہوں نے تاکید کی کہ ہم چین کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ افغانستان کے حکمرانوں سے کہے کہ وہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کو دبائے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان خطے میں چین کی بات مانتے ہیں۔
انہوں نے افغانستان کے خلاف پاکستان کے اس الزام کا حوالہ دیتے ہوئے (خاص طور پر دو ماہ قبل پاکستان میں چینی شہریوں کے خلاف حملے میں) کہ دہشت گردوں نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا، کہا کہ اسلام آباد اس مسئلے پر انتہائی پریشان ہے۔
پاکستانی حکومت اور فوج غیر ملکی ایجنٹوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کو دہشت گردانہ حملوں خصوصا اس سال 7 اپریل کو چینی شہریوں کے خلاف خودکش حملے میں میں ملوث سمجھتے ہیں، ۔
افغانستان میں طالبان کی نگراں حکومت نے پاکستان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے اسلام آباد سے کہا کہ وہ اپنے پڑوسیوں پر الزامات لگانے کے بجائے اندرونی طور پر اپنے مسائل کا حل تلاش کرے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ نے گزشتہ جمعے کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافے بشمول دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے کی خبروں کے بارے میں کہا کہ اسلام آباد کو کابل کی سرحدوں پر سیکورٹی کی صورتحال کے بارے میں شدید تحفظات ہیں اور ہم نے افغانستان کو آگاہ کیا ہے اور ہم غیر ملکی خطرے کے خلاف اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔
آپ کا تبصرہ