16 فروری، 2022، 1:10 PM
Journalist ID: 2392
News ID: 84652631
T T
0 Persons
ایرانی چیف اعلیٰ مذاکرات کار کی آئی اے ای اے کے سربراہ سے ملاقات

ویانا، ارنا – ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کنی نے منگل کے روز آسٹریا کے شہر ویانا میں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی سے ملاقات کی۔

باقری کنی اور گروسی نے ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
ایرانی چیف مذاکرات کار نے حالیہ دنوں میں جوہری معاہدے کے شرکاء کے ساتھ کئی دو طرفہ اور کثیرالجہتی ملاقاتیں کی ہیں۔
روس کے چیف مذاکرات کار نے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جوہری معاہدے پر متفق نہیں ہیں۔
"میخائیل اولیانوف" نے منگل کے روز اسرائیلی سفارتی مشن کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات ویانا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ایک دوسرے کے موقف سے واقف ہیں اور اس حقیقت کا احترام کرتے ہیں کہ ہم جوہری معاہدے پر متفق نہیں ہیں، لہذآ بحث کے لیے کچھ نہیں ہے۔
الیانوف نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کی کانفرنس سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے آخری مراحل میں ہیں لیکن ہمیں کام کو مکمل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے –
ویانا مذاکرات میں ایرانی مذاکراتی ٹیم کے مشیر محمد مرندی نے منگل کے روز المیادین ٹی وی کو ایک گفتگو میں کہا کہ جب تک یورپی ایران کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ یورپی اور امریکیوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ ایران انھیں صرف اس لیے رعایت نہیں دے گا کہ وہ جا کر دوبارہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یورپی ممالک ایران کے مطالبات پر راضی نہیں ہوتے اور جوہری معاہدے کو پورا نہیں کرتے، جس میں پابندیوں کے خاتمے کی تصدیق کے ساتھ ساتھ تہران کو ضمانتیں فراہم کرنے کی شرط رکھی گئی ہے، ہم کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکتے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران پر پابندیاں ہٹانے کے سلسلے میں ویانا میں مذاکرات کا آٹھواں دور مشاورت کے لیے 11 دن کے وقفے کے بعد 10 فروری کو آسٹریا کے دارالحکومت میں ایرانی وفد اور 4+1 گروپ کے درمیان دوبارہ شروع ہوا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .