ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے مقصد کیلیے ویانا میں جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا نیا دور شروع ہو چکا ہے اور سب ممالک ان مذاکرات میں شریک فریقین کے رویے کو غور سے تعاقب کر رہے ہیں۔
سب سے واضح عالمی توقع یہ ہے کہ پابندیوں کے خاتمے اور جوہریم معاہدے کی دفعات کے موثر نفاذ کے لیے ایران کے مجوزہ متن کا دستاویزی اور مدلل جواب فراہم کیا جائے۔
ارنا کے نمائندے کے مطابق 4+1 گروپ، یورپی یونین اور ایران کے مذاکراتی وفود کے سربراہان کے درمیان جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کا نیا دور ایک ہفتے کے وقفے کے بعد ویانا کے کوبرگ ہوٹل میں منعقد ہو رہا ہے۔
یہ نشست آنے والے مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے فریقوں کے ارادے کے کا اندازہ لگانے کے لیے ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد نے گزشتہ ہفتے جابرانہ پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی مسائل کی دو شکل میں اپنے مجوزہ متن کو پیش کرنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اگر دوسرے فریق مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں تو وہ ویانا میں ہی قیام کرے گا۔ لیکن یورپیی ممالک جنہوں نے امریکی خیالات کے تابع ہیں، ایران کے مجوزہ متن کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے لیے مذاکرات کو روکنے کا مطالبہ کر کے اپنے دارالحکومتوں کا رخ کیا ۔
سینئر برطانوی، جرمن اور فرانسیسی سفارت کاروں نے گزشتہ چند دنوں میں ایران کی تجویز کردہ دستاویزات پر کوئی مثبت تبصرہ نہیں کیا ہے اور امریکہ جس نے خود جوہری معاہدے سے علیحدہ ہوگیا ہے اپنے خیر خواہانہ اشاروں اور جوہری معاہدے میں واپسی کے دعوے کے برعکس اقدام کرتے ہوئے ایران پر نئی ظالمانہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکہ نے جوہری معاہدے کے نفاذ میں موجودہ مسائل کی اصل وجہ کی حیثیت سے اپنے کردار سے قطع نظر، کہا ہے کہ پابندیوں کا خاتمہ اور ایران کے ساتھ معاہدے کی طرف واپسی کی شرط ایران کی جانب سے جوہری وعدوں کا مکمل نفاذ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران جو کہ جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے ایک سال بعد تک معاہدے کے فریقین اور یورپی یونین کی درخواست پر اپنے وعدوں پر عمل کیا ، امریکی غیر قانونی مطالبات کے فیصلہ کن رد عمل میں دوسری فریقوں کی جانب سے عملی اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے، جن کے نتائج لوگوں کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق ہوں گے۔
دوسری طرف سے روس اور چین، 4+1 گروپ کے دیگر فریقوں کے طور پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترجیح ایران کے خلاف جابرانہ پابندیوں کو ہٹانا ہے۔
ویانا مذاکرات میں روس کےسنیئر مذاکرات کار میخائل اولیانوف کا کہنا ہے ک ایران کا مجوزہ متن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مزید مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ جیسا کہ میں نے ویانا مذاکرات میں اپنے تمام ہم منصبوں کو بارہا بتایا ہے کہ ایک مشترکہ زبان صرف صبر کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تو آئیے جلد بازی میں نتائج اخذ کرنے سے گریز کریں۔
انہوں نے گزشتہ روز ویانا مذاکرات میں شامل فریقین کے ساتھ کئی ملاقاتیں بھی کیں، ان کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کے ارکان معاہدے کی دفعات کو بحال کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں، لیکن اس میں شامل طریقوں اور ذرائع کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ اور ویانا مذاکرات کا مقصد تنازعات اور اختلاف رائے پر قابو پانا ہے۔
چین کے اعلی مذاکرات کار وانگ کوان نے بھی کہا کہ ایرانی وفد عملیت پسند ہے اور اس کی توجہ پابندیاں ہٹانے پر مرکوز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ترجیح پابندیوں کو ہٹانا ہے، اور ہمیں مذاکرات میں سب سے پہلے اس پر توجہ دینی چاہیے۔
ایران کے اعلی مذاکرات کار علی باقری کنی جنہوں نے مذاکرات کے تسلسل کے لیے آج کی صبح ویانا پہنچے، حالیہ دنوں میں روس اور چین کے فریقین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے گزشتہ منگل کو ماسکو کا سفر کیا، جہاں انھوں نے اپنے روسی ہم منصب کے نائب سرگئی ریابکوف سے ملاقات کی۔
انہوں نے صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ اس مرحلے کے مذاکرات میں تیزی لانے کے لیے مجھے جمعرات کو تعمیری کے ایک ماحول میں بات چیت جاری رکھنے کے لیے روسی حکام سے مشورہ کرنے کی ضرورت تھی۔
۔ ۔ ۔ جاری ہے
آپ کا تبصرہ