رپورٹ کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندے برائے تایباد، تربتجام، صالحآباد و باخرز کے علاقے "جلیل رحیمی" نے مزید کہا کہ افغانستان کیساتھ ایران کی موجودہ اقتصادی تجارت 3.3 بلین ڈالر ہے۔ لیکن اگر مقررہ وقت پر دوغاروں فری زون کے قیام کی منظوری دی گئی تھی تو اب افغانستان کیساتھ ایران کی تجارت میں دو سے تین گنا تک اضافہ ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی 30 ملین ہے اورہمارے ساتھ اس کے ثقافتی، مذہبی اور لسانی مشترکات ہیں اور اس کی معیشت کا انحصار مختلف اشیا کی درآمد اور تبادلے پر ہے۔
رحیمی نے کہا کہ دوغاروں فری زون، ہمارے ملک میں گری دار میوے اور افغانستان کے قیمتی اور آرائشی پتھروں جیسی اشیا درآمد کرنے کی جگہ ہو سکتا ہے جسے پروسیسنگ کے بعد خلیج فارس کے ممالک اور یورپ کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی مشاورتی اسمبلی کے قومی سلامتی کمیشن کے رکن نے کہا کہ دوسری طرف، اگر دوغارون فری زون فعال تھا تو افغانستان کو درکار سامان اس ملک کو بغیر ڈیوٹی اور کسٹم کے مسائل کے برآمد کیا جاتا تھا۔ کیونکہ سامان دبئی سے براہ راست فری زون میں داخل ہو سکتا تھا اور بغیر ڈیوٹی کے افغانستان میں داخل ہو سکتا تھا، جس کی وجہ سے اس ملک کے لوگوں کے لیے سامان سستا ہوجاتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نتیجتاً وہ اپنی ضرورت کا سامان ایران سے منگوانے کو ترجیح دیتے تھے تا ہم بڑی افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کیساتھ ہماری دو سے تین گنا اضافے کی تجارت کو چار سال سے نظر انداز کیا گیا اور مواقع ضائع ہو گئے۔
رحیمی نے دوغارون فری زون میں نقل و حمل کی سرمایہ کاری کی صلاحیت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ دوغارون فری زون کی منظوری کے بعد ایران اور افغانستان کے درمیان تجارتی تبادلے کے زیادہ حجم اور براہ راست سامان خریدنے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد کے باعث خطے کے ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں نمایاں ترقی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال، دوغارون اسپیشل اکنامک زون کو سرمائے کو راغب کرنے کے لیے فعال کیا گیا ہے اور روزانہ 300 سے 400 ٹرک اس سرحد سے گزر رہے ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ کے رکن نے کہا کہ دوغارون فری زون کے قیام سے اس سرحد پر تجارتی ٹریفک روزانہ ایک ہزار ٹرک اور دیگر کاروں تک بڑھ جائے گی۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ