4 اکتوبر، 2021، 8:06 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84493968
T T
0 Persons
 ویانا جوہری مذاکرات میں ایران کی واپسی حتمی ہے: ترجمان محکمہ خارجہ

لندن، ارنا- ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یقینا  جوہری مذاکرات میں شامل ہوجائے گا لیکن اس کی تاریخ کا تعین، مطالعے اور مذاکرات کے پچھلے دور کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا۔

"سعید خطیب زادہ" نے فرانس 24 ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دو مرحلوں میں ایران میں نئی ​​حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ریکارڈوں کا جائزہ لینے کا عمل شروع کیا ہے۔ پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے اور ہم نے اعلان کیا ہے کہ ہم یقینی طور پر 1+4 کے گروپ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ویانا جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جائزہ کا دوسرا مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور ہم پچھلی ایرانی حکومت کے مذاکرات کے چھ دوروں کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور نئی حکومت کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے؛ یہ مرحلہ جلد ختم ہو جائے گا اور ہم مذاکرات کے ایک نئے دور کی تاریخ طے کر سکیں گے۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ صدر مملکت اور وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم جوہری مذاکرات کے ریکارڈ کے مراحل ختم ہوجانے کے بعد ہی" ویانا مذاکرات میں واپس آئیں گے"۔

انہوں نے تہران میں ماضی کے ریکارڈ کے جائزہ کو ایک تکلیف دہ کام قرار دیا جو ابھی تہران میں جاری ہے  اور اس بات کا نوٹ کیا کہ اس مرحلے کے اختتام تک جو وقت باقی ہے وہ بائیڈن حکومت اور ان کی ٹیم کو ویانا پہنچنے میں جتنا وقت لگا اس سے کم ہے۔

خطیب زادہ نے کہا کہ نئی حکومت اس بات کی تلاش میں ہے کہ پچھلے مذاکرات اطمینان بخش نتیجہ اور ایسی دستاویز جس سے تمام فریق متفق ہوں، میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے۔ نیز حکومت ان مسائل کی بھی تلاش کر رہی ہے جنہیں اگلے اجلاس میں حل کرنے کی ضرورت ہے؛ یہ سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کے بعد عائد کردہ تمام پابندیوں کا خاتمہ ہے۔

ایرانی محکہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے ایران کیخلاف 800 یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیاں عائد کیں اور ان سب کو ختم کرنا ہوگا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شروع سے ہی ایران کا موقف تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں کہ پابندیاں مؤثر طریقے سے ہٹائی جائیں۔

خطیب زادہ نے "کیا تمام امریکی پابندیوں کو ہٹانا ایران کے لیے ویانا جوہری مذاکرات میں واپسی کی شرط ہے" کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کوئی پیشگی شرط نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور گروپ 1+4 جامع مشترکہ ایکشن پلان کے رکن ہیں۔ امریکہ بھی مذاکرات کے کمرے میں واپس آنا چاہتا ہے لیکن اسے ٹکٹ خریدنا ہوگا۔

ان کے مطابق، امریکی ٹکٹ کی بھاؤ؛ گروپ 1+4 اور ایران کیجانب سے ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ، دوبارہ لاگو یا دوبارہ لیبل لگانے والی تمام پابندیوں کو ختم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ واشنگٹن اقوام جوہری معاہدے کی مزید خلاف ورزی نہیں کرے گا۔

خطیب زادہ نے "کیا ایران امریکہ سے مزید پوانٹس لینے کے درپے ہے" کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں کیے گئے مذاکرات اور دستخط کیے گئے معاہدے کا احترام کرنا ہوگا اور دیگر فریقین کیجانب سے اس معاہدے کے مکمل نفاذ کا اطمینان کی ضرورت ہے۔

خطیب زادہ نے نوٹ کیا کہ امریکی صدر نے انتخابی فتح سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرمپ کے دور میں تمام علیحدہ کیے گئے معاہدوں سے دوبارہ واپس جائے گا لیکن جوہری معاہدے کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ نے ایران کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیاں اب بھی فعال ہیں اور ہم نے ایران کے حوالے سے ان کی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایرانی جوہری پروگرام کیخلاف ناجائز صہیونی ریاست کے وزیراعظم کے بار بار ریمارکس سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میرے خیال میں ہر کوئی جانتا ہے کہ صہیونی ریاست، ایران سے متعلق بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ "ناجائز صہیونی ریاست" سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈز  کیساتھ اور اس کی جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (این پی ٹی) میں عدم شمولیت، ایران سے متعلق جو این پی ٹی کا رکن ہے اور ان کی پُرامن جوہری سرگرمیوں کی آئی اے ای اے کی 15 رپورٹوں میں تصدیق کی گئی ہے، کی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

خطیب زادہ نے "کیا ایران جوہری ہتیھار تیار کرنے کا خواہاں نہیں ہے" کے سوال کے ج۔اب میں کہا کہ میرا کہنا یہ ہے کہ پُرامن جوہری پروگرام، ایران کا حق ہے اور اسرائیل جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کی حیثیت سے ایران کی پُرامن جوہری سرگرمیوں پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ  اس کے علاوہ این پی ٹی میں ایران کی رکنیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے فوجی اور دفاعی نظریے میں نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ ایران دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی کی حمایت کرتا ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .