اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز میں مشرق وسطی اور افریقہ کے ریسرچ سینٹر کے محققین نے حال ہی میں "ایران میں انتخابات اور پاکستان سے تعلقات کا ویژن" کے عنوان کے تحت ایک تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹ شائع کی۔
اس رپورٹ میں اپنے پڑوسیوں سے متعلق ایرانی حکومت کے مستقبل کے نظریہ، پابندیوں کا تسلسل، ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے اثرات، ایران، پاکستان اور چین کے سہ فریقی تعاون کے مواقع سمیت اسلام آباد اور تہران کے درمیان تعلقات کی تقویت جیسے موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پاکستانی اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق "محمد یاسین نعیم" نے نئی ایرانی حکومت میں معاشی صورتحال کی منصوبہ بندیوں سے متعلق کہا کہ توقع کی جارہی ہے کہ ایران کے نو منتخب صدر، معاشی نظام میں اصلاحات کریں گے (یعنی فلاحی ترقی اور غربت میں کمی کی حکمت عملی اپنائے جانے کا امکان ہے)۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، جوہری معاہدے کی ممکنہ بحالی کے پیش نظر، ایران، چین اور روس کیساتھ اقتصادی، دفاعی اور سفارتی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی کوشش کرے گا جس سے مغرب اور تہران کے درمیان تعلقات میں مزید کمی آئے گی۔
یاسین نعیم نے کہا کہ ایران میں 13 ویں حکومت کو امریکی اور مغربی اقتصادی پابندیوں کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی آئندہ حکومت بیرونی دباؤ سے خوفزدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ علامہ رئیسی سے انقلاب کے نظریات اور اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں کام کرنے کی امید ہے اور ایران کے نئے صدر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پڑوسی ممالک اور خطے کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطی سے متعلق رئیسی کی حکمت عملی، اپنے شراکت داروں بشمول عراق اور شام سے تعلقات کی مضبوطی ہے؛ نیز ان کے صدرات کے دور میں ناجائز صہیونی ریاست کے سامنے ایرانی دفاعی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے رواں مہینے کے دوران، نو منتخب ایرانی صدر کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے علاقائی امن، خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں باہمی تعاون کے فروغ پر امید کا اظہار کرلیا۔
ایران اور پاکستان درمیان تجارتی حجم کا فروغ، سرحدی سیکیورٹی میں اضافہ، افغان امن عمل میں سہولت کاری اور عالمی اسلامو فوبیا سے نمٹنے سمیت بہت ساری مشترکات ہیں اور ساتھ ہی دونوں ممالک کو مشترکہ چیلنجوں بشمول باہمی تجارتی کیخلاف امریکی دباؤ، علاقائی تعلقات، توانائی کے بنیائی ڈھانچوں کی تعمیر، سرحدی سیکورٹی اور امریکہ اور چین کے درمیان منفی مقابلے کے اثرات کا سامنا ہے۔
اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نئی ایرانی حکومت کیساتھ پاکستان کے تعلقات کو بین الاقوامی طاقتوں کے ذریعے قریب سے مانیٹر کیا جائے گا۔
تو اسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے کچھ امکانات حسب ذیل ہیں؛ دونوں ممالک کے اعلی عہدیدار مل کر اسلامو فوبیا، آب و ہوا کی تبدیلی اور کورونا کی وبا کے خلاف جنگ جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان میں امن بھی تہران اور اسلام آباد کا مشترکہ نقطہ ہے؛ ان محققین کے مطابق، عمران خان کا واضح وژن اور ان امور پر پختہ موقف، دونوں پڑوسی ممالک کو باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی آسانی سے ترغیب دے سکتا ہے۔
ایران اور پاکستان نہ صرف افغانستان کے اہم ہمسایہ ممالک ہیں، بلکہ ان کے افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے سے افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کا قیام ممکن ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ