ایران کے جنوب مشرق میں واقع علاقے چابہار کے منفرد اور خوبصورت چھوٹے چھوٹے پہاڑ، اس قدر پرکشش اور دلکش ہیں کہ بہت سارے سیاح، کئی سالوں سے ان عجیب و غریب مقامات کو دیکھنے کیلئے اس خطے کا رخ کرتے ہیں۔
چابہار کے چھوٹے پہاڑوں کو خصوصی ماحولیاتی مظاہر کے زمرے میں شامل کرنے سے ان کو دیکھنے کیلئے قدرتی مناظر سے دلچسبی رکھنے والے پیشہ ور افراد اور محققین کی توجہ دوگنی ہوگئی ہے۔
ایرانی محکمہ برائے ثقافتی ورثے، سیاحتی اور دستکاری مصنوعات کے وزیر "علی اصغر مونسان" نے اپنے انسٹاگرام پیچ میں چابہار کے مینچر پہاڑوں کی تصاویر کو شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایران کی خوبصورتیوں کی بات ہو تو یہ خوبصورتی صرف تاریخی عمارتوں اور ثقافتی مقامات تک ہی محدود نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پورے ایران میں تاریخ اور فطرت کی نقشوں کیساتھ ، ہمارے ملک کی زیادہ تر خوبصورتی کو چابہار کے خوبصورت خطے اور بحیرہ جنوبی کے آرام دہ پانیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چابہار مینچر پہاڑوں کی اونچائی 20 سے 100 میٹر تک ہے اور یہ، قدرتی مناظر میں دلچسبی رکھنے والوں اور سیاحوں کیلئے ایک پر کشش جگہ ہے اور مٹی کشرن اور خاص تلچھٹوں کی قسم اور حالت کی وجہ سے، اس کی شکلیں مریخ کی ؤبڑپن کی طرح ہیں۔
مونسان نے کہا کہ کلوسیرک تلچھٹیں ریت اور مٹی کے ساتھ ساتھ کرسٹیشین اور مچھلی کی باقیات ان پہاڑوں کی تلچھٹ کے اہم اجزاء ہیں؛ یہ پہاڑ چابہار کی حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک ہیں جو سرسبز بہار کے موسم میں اس خطے کی خوبصورتی کو دوبالا کردیتے ہیں۔
چابہار کے مریخ کے پہاڑوں اور اس علاقے کی حیرت انگیز قدرتی مناظر کو دیکھنے کیلئے چابہار سے گواتر تک 85 کلومیٹر کے فاصلے کو طے کرنا ہوگا اور پھر آپ بیٹھ کر ان خوبصورت منیچر اور خاص پہاڑوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
مونسان نے چابہار کے چھوٹے پہاڑوں کو سیاحت کے میدان میں بہت اہم سمجھا اور فطرت سے محبت کرنے والوں کو اس قدرتی تحفے کو دیکھنے کیلئے صوبے سیستان اوربلوچستان میں واقع علاقے چابہار کا رخ کرنے کی دعوت دی۔
کوورنا وبا پھیلنے اور اس کی شدت میں اضافے کے پیش نظر قومی کمیٹی برائے کورونا روک تھام نے، لوگوں کو گھر میں رہنے کا مشورہ دیا ہے لہذا اب ملک کی سیاحتی دلچسبیوں کی شناخت کا بہترین موقع ہے تا کہ کورونا وبا پر قابو پانے کے بعد ہم ان سیاحتی دلچسبیوں سے کافی فائدہ اٹھاسکیں گے۔
چابہار شہر، خوبصورتی کیلئی مشہور ہے؛ ہر سال، بہت سے سیاح چابہار مثالی ایکوٹوورزم کی سیر کرنے کیلئے وہاں کا رخ کرتے ہیں؛ اس خطے کی سب سے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک کا تعلق چابہار- گواتر بندرگار کی روڈ ہے؛ ایک طرف مخروطی شکل والے پہاڑ اور دوسری طرف صحرائی جھاڑیوں والی گلابی جھیل اور اس کی سرخ ریتوں نے اس سڑک کو صوبے سیستان اور بلوچیستان کی ایک خوبصورت سڑک بنا دیا ہے۔
چابہار سے گواتر بندرگاہ تک تقریبا 40 کلومیٹر کے فاصلے پر لوگوں کی نظروں کے سامنے حیرت انگیز نظارے سامنے آتے ہیں۔ پورا علاقہ، جو مشرق کی دسیوں کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے ؤبڑپن سے بنا ہوا ہے جو مریخ کی سطح سے مضبوط مشابہت رکھتا ہے یہ پہاڑ جو تلچھٹ اور مٹی کشرن کی حالت کی وجہ سے اس شکل اختیار کرچکے ہیں، کو مریخ یا منیچر پہاڑ کہتے ہیں۔
مکران کے نیچے عمان کے کرسٹ کی تابکاری اور پانی اور ہوا کے کٹاؤ کی وجہ سے ٹیکٹونک عمل، ان پہاڑوں کی تشکیل کی سب سے اہم وجوہات ہیں، جس کی وجہ یہ ایک انتہائی دلکش اور منفرد جیولوجیکل مظاہر وجود میں آگئے ہیں۔
مریخ کے پہاڑ، تلچھٹ پتھروں سے بنے ہوئے ہیں جن میں مارے، مٹی اور چونے کے سفید رنگ موجود ہیں اور ان میں مٹی کشرن کی وجہ سے خوبصورت نالی پیدا ہوئے ہیں۔
اس خطے کے لوگوں کے لئے مریخ کے پہاڑ، خصوصی معاشی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان پہاروں کے اجزا جو بنیادی طور پر مارل، مٹی اور کالیسی مرکبات ہیں، اینٹوں کیساتھ ساتھ سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس خطے کو عالمی جیوپارک کے طور پر رجسٹرڈ کرنا ہوگا کیونکہ اس میں سیاحوں کو راغب کرنے اور علاقے کے لوگوں کیلئے آمدنی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ